Iqbal Saifi

اقبال سیفی

  • 1967

اقبال سیفی کی غزل

    کتنا آگے نکل گیا ہوں میں

    کتنا آگے نکل گیا ہوں میں غم کے سانچے میں ڈھل گیا ہوں میں جل رہا تھا مکان اس کا مگر میں یہ سمجھا کہ جل گیا ہوں میں آپ اپنے پہ پڑ گئی جو نظر خود ہی ہنس کر بہل گیا ہوں میں وہ کہ محلوں میں بے قرار رہا دشت و صحرا میں پل گیا ہوں میں چلتے چلتے وفا کی راہوں میں گرتے گرتے سنبھل گیا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    ان کے رخ پہ دیکھ کر آنچل ہوا

    ان کے رخ پہ دیکھ کر آنچل ہوا اور پاگل ہو گئی پاگل ہوا دھجیاں میرے گریباں کی لیے ان کے کوچے میں ذرا تو چل ہوا نکہت گل لے کے اپنے ساتھ ساتھ جانب صحرا چلی چنچل ہوا آسماں پہ چھا گئی کالی گھٹا لے اڑی کس آنکھ کا کاجل ہوا برگ و گل سیفیؔ زمیں پہ آ گئے یوں چلی صحن چمن میں کل ہوا

    مزید پڑھیے

    لہو دے کر جلا بخشیں گے اے اردو زباں تجھ کو

    لہو دے کر جلا بخشیں گے اے اردو زباں تجھ کو کبھی مٹنے نہیں دیں گے یہ تیرے پاسباں تجھ کو جہاں کے گوشے گوشے میں یہ تیرے چاہنے والے سدا محفوظ رکھیں گے سمجھ کر جسم و جاں تجھ کو ادب کے دائرے میں رہ کے اکثر پیش کرتے ہیں کہیں شیریں زباں تجھ کو کہیں شعلہ بیاں تجھ کو تری وسعت کا اندازہ ...

    مزید پڑھیے

    دل کی یہ آرزو ہے صنم بولتے رہو

    دل کی یہ آرزو ہے صنم بولتے رہو تم کو ہمارے سر کی قسم بولتے رہو سنتے رہیں گے دوستو ہم بولتے رہو آنکھیں کبھی نہ ہوں گی یہ نم بولتے رہو خاموشیوں نے جنم دئے ہیں نئے ستم کب تک یہ ظلم اور ستم بولتے رہو دل زندہ ہے تو دو کوئی اس کا ثبوت بھی خاموش کیوں ہو اہل قلم بولتے رہو حق گوئی کی ...

    مزید پڑھیے