کتنا آگے نکل گیا ہوں میں
کتنا آگے نکل گیا ہوں میں
غم کے سانچے میں ڈھل گیا ہوں میں
جل رہا تھا مکان اس کا مگر
میں یہ سمجھا کہ جل گیا ہوں میں
آپ اپنے پہ پڑ گئی جو نظر
خود ہی ہنس کر بہل گیا ہوں میں
وہ کہ محلوں میں بے قرار رہا
دشت و صحرا میں پل گیا ہوں میں
چلتے چلتے وفا کی راہوں میں
گرتے گرتے سنبھل گیا ہوں میں
گرمیٔ زیست جب بڑھی سیفیؔ
برف جیسا پگھل گیا ہوں میں
خاک پائے رسول اے سیفیؔ
اپنی آنکھوں سے مل گیا ہوں میں