Iqbal Haider

اقبال حیدر

  • 1946 - 2020

اقبال حیدر کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    بجھ گئی دل کی کرن آئینۂ جاں ٹوٹا

    بجھ گئی دل کی کرن آئینۂ جاں ٹوٹا پر پرواز سمیٹے تو لہو سا پھوٹا رسم آشفتہ سری میں ہیں گریباں دامن فلک پیر بتا کون ہے سچا جھوٹا چاند سورج ہوئے جاتے ہیں دھوئیں میں روپوش جرس وقت کہاں آگ کا چشمہ پھوٹا مرثیوں اور قصیدوں سے بھری ہے محفل شہر آشوب سے ہر رشتۂ دانش ٹوٹا شجر درد کی ہر ...

    مزید پڑھیے

    کھوئے گئے تو آئنہ کو معتبر کیا

    کھوئے گئے تو آئنہ کو معتبر کیا ہم نے تری تلاش میں اپنا سفر کیا بے گھر مسافروں کے مقدر میں خاک ہے سو ہم نے گرد راہ کو دیوار و در کیا اس مرکز جمال کے ہم بھی اسیر ہیں جس مرکز جمال نے ہر دل میں گھر کیا شہر وفا خموش ہے پتھر بنے بغیر کیسا فریب کوہ ندا نے اثر کیا بازو سمیٹتے ہیں درختوں ...

    مزید پڑھیے

    مرجھایا کبھی دل کو شگفتہ پایا

    مرجھایا کبھی دل کو شگفتہ پایا ہر بار نیا زخم تمنا پایا ہر گزرے ہوئے وقت کو عنقا پایا آتے ہوئے لمحات کو دھندلا پایا کتنے ہی مسیحا تھے جو قاتل نکلے قاتل جسے سمجھے تھے مسیحا پایا دیکھوں تو گماں آئنہ بینی کا ہو اب تک نہ کوئی دنیا میں ایسا پایا یاد آ گئی ماضی کی بڑی شدت سے ماتھے کی ...

    مزید پڑھیے

    محفلوں کے درمیاں تنہائیوں کے درمیاں

    محفلوں کے درمیاں تنہائیوں کے درمیاں زندگی گزرے گی کب تک واہموں کے درمیاں کچھ ادھورے رنگ ہیں کچھ نا مکمل عکس ہیں خواب زندہ ہیں شکستہ آئنوں کے درمیاں دوستی اور روشنی کے دائرے ہیں مختلف ہم سبھی موجود ہیں ان دائروں کے درمیاں ہم تو سمجھے تھے کہ ہم آسودۂ منزل ہوئے اک پڑاؤ آ گیا ہے ...

    مزید پڑھیے

    سمندر کے کنارے اک سمندر آدمیوں کا

    سمندر کے کنارے اک سمندر آدمیوں کا ہمارے شہر میں رہتا ہے لشکر آدمیوں کا وہی سینہ فگاری ہے وہی بے اعتباری ہے بدلتا ہی نہیں ہے یاں مقدر آدمیوں کا زمیں سے آسماں تک چھا رہی ہے خون کی سرخی چھپا ہے خیر کے پردے میں بھی شر آدمیوں کا قیامت سے بہت پہلے قیامت کیوں نہ ہو برپا جھکا ہے آدمی ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    مرگ گل سے پیشتر

    سب دریچے بند ہیں تم کچھ کہو تم سمجھتے ہو گریباں چاک ہوں میں تو اندوہ سماعت کے جراثیموں سے بالکل پاک ہوں نالۂ بیباک ہوں سب دریچے بند ہیں تم کچھ کہو تم سمجھتے ہو کہ بینائی گئی بجھ گیا ہر روزن دیوار چپ ہے روشنی نیم وا ہے تیرگی یہ شگفت غنچہ لب کی صدا وہ حسیں قوس قزح رنگیں قبا دھڑکنوں ...

    مزید پڑھیے

    لبیک

    سناٹوں کا شب خوں ہے ہوا کے نٹکھٹ تاروں پر دور کہیں کچھ آوازوں کی سرگوشی ہے یہ نافہم صدائیں کبھی مدھر سا رے گا ما پا دھا نی سا ہیں کبھی پگھلتا سیسہ ہیں چاروں جانب سیل ہوا ہے مگر خلا ہے خوشبو رنگ نہ تارے میں تشنہ گوش عدم سماعت کے مارے ہیں دھندلے خواب دیکھنے کی چاہت میں ہارے ...

    مزید پڑھیے