مرگ گل سے پیشتر
سب دریچے بند ہیں تم کچھ کہو تم سمجھتے ہو گریباں چاک ہوں میں تو اندوہ سماعت کے جراثیموں سے بالکل پاک ہوں نالۂ بیباک ہوں سب دریچے بند ہیں تم کچھ کہو تم سمجھتے ہو کہ بینائی گئی بجھ گیا ہر روزن دیوار چپ ہے روشنی نیم وا ہے تیرگی یہ شگفت غنچہ لب کی صدا وہ حسیں قوس قزح رنگیں قبا دھڑکنوں ...