مرجھایا کبھی دل کو شگفتہ پایا

مرجھایا کبھی دل کو شگفتہ پایا
ہر بار نیا زخم تمنا پایا


ہر گزرے ہوئے وقت کو عنقا پایا
آتے ہوئے لمحات کو دھندلا پایا


کتنے ہی مسیحا تھے جو قاتل نکلے
قاتل جسے سمجھے تھے مسیحا پایا


دیکھوں تو گماں آئنہ بینی کا ہو
اب تک نہ کوئی دنیا میں ایسا پایا


یاد آ گئی ماضی کی بڑی شدت سے
ماتھے کی لکیروں کو جو گہرا پایا


جی میں تھا کہ اوروں کا تماشا دیکھوں
ہوش آیا تو خود کو ہی تماشا پایا


خوابوں کے کئی جام پئے آنکھوں نے
خوابوں سے مگر دل نہ بہلتا پایا


اقبالؔ مرے حال سے یہ ظاہر ہے
کیا دل کی تمنا تھی مگر کیا پایا