Iqbal Ashhar Quraishi

اقبال اشہر قریشی

اقبال اشہر قریشی کی غزل

    فرار پا نہ سکا کوئی راستہ مجھ سے

    فرار پا نہ سکا کوئی راستہ مجھ سے ہزار بار مرا سامنا ہوا مجھ سے درخت ہاتھ ہلاتے تھے رہنمائی کو مسافروں نے تو کچھ بھی نہیں کہا مجھ سے یہ بے ہنر بھی نہیں ساتھ بھی نہیں دیتے نہ جانے ہے مرے ہاتھوں کو بیر کیا مجھ سے میں لوٹنے کے تصور سے خوف کھاتا ہوں لپٹ نہ جائیں کہیں میرے نقش پا مجھ ...

    مزید پڑھیے

    اب نہ دے الزام بے دردی کا مکاری نہ کر

    اب نہ دے الزام بے دردی کا مکاری نہ کر تو ہی خود کو جانچ لے مجھ سے اداکاری نہ کر تیری آنکھوں سے نہ بہہ نکلے کہیں میرا لہو وار کرنا ہے تجھے تو اس قدر کاری نہ کر مانتا ہوں میں نے تیرے ضبط کو چھیڑا مگر راہ میں یوں دیکھ کر اظہار بے زاری نہ کر وضع داری سے اکیلے عمر کٹتی ہے کہیں اپنے ...

    مزید پڑھیے

    یوں شور و شر کے سارے طلب گار سو گئے

    یوں شور و شر کے سارے طلب گار سو گئے سناٹے چیخنے لگے بازار سو گئے پلکوں پہ بوجھ بن گئیں جب دن کی رونقیں آنکھوں میں بھر کے خواب گراں بار سو گئے دیوار و در بھی اپنی مرمت سے تنگ تھے گر جائے اب مکان کہ معمار سو گئے سورج کے ساتھ تو بھی لہو رو کے ڈوب جا اے شام ہجر تیرے پرستار سو ...

    مزید پڑھیے

    گھر مجھے بیچ کے اب رخت سفر لینا ہے

    گھر مجھے بیچ کے اب رخت سفر لینا ہے غلطی ہی سہی اک بار تو کر لینا ہے ظرف یہ ہے کہ تجھے دشت میں پانی کی تلاش اور مجھے خشک سمندر سے گہر لینا ہے اپنے اندر جو چھپا رکھا ہے اس نے اک راز وہ اجازت تو نہیں دے گا مگر لینا ہے کیوں جلاتا ہے یہ صحرا مجھے معلوم ہے سب اپنے دامن کو مری راکھ سے بھر ...

    مزید پڑھیے

    وہ نقش پا ہیں کوئی دوسرا چلے تو گرے

    وہ نقش پا ہیں کوئی دوسرا چلے تو گرے ترے قدم پہ ترا آشنا چلے تو گرے مجھے ہے علم تخیل کی تیز گامی کا ترے خیال میں بیٹھا ہوا چلے تو گرے نہ سوچی بات جو تو نے وہ لکھ نہ جاؤں کہیں قلم یہ تیرے لیے سوچتا چلے تو گرے قبول کر لیا قبروں نے ساری لاشوں کو یہاں نگاہ کوئی اب اٹھا چلے تو گرے یہ ...

    مزید پڑھیے

    اب وفا رنگ تماشا کوئی چہرہ نہ رہا

    اب وفا رنگ تماشا کوئی چہرہ نہ رہا اپنی آنکھوں کی چمک پر بھی بھروسا نہ رہا ہم تو آئے تھے ملاقات کریں گے تجھ سے یہ خبر کب تھی کہ تو اپنے ہی جیسا نہ رہا لوگ کہتے ہیں کہ ہر چیز سمجھتی ہے ہمیں میں بہت خوش ہوں کہ اب کوئی ادھورا نہ رہا اس کے ملنے کی خوشی اس کے بچھڑنے کا قلق ایک گردش تھی ...

    مزید پڑھیے

    یہ خوف کم ہے مجھے اور چمکو جب تک ہو

    یہ خوف کم ہے مجھے اور چمکو جب تک ہو سیاہ رات کے سناٹو تم بھی کب تک ہو مسافرو کہیں تنہائیاں نہ بن جانا کہ ساتھ ہو بھی اگر تم تو اک سبب تک ہو یہ کج ادائی بہت کم نصیب ہوتی ہے تم اپنے غم میں اکیلے ہو پھر بھی سب تک ہو جو لوگ لوٹ کے خود میرے پاس آئے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ اشہرؔ یہیں پہ اب ...

    مزید پڑھیے

    سب تمناؤں سے خوابوں سے نکل آئے ہیں

    سب تمناؤں سے خوابوں سے نکل آئے ہیں ہم بہت دور سرابوں سے نکل آئے ہیں خود کو جب بھول سے جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے زندگی تیرے عذابوں سے نکل آئے ہیں روشنی مجھ کو ملی ہے تو ذرا جانچ تو لوں آج سب چہرے نقابوں سے نکل آئے ہیں ہم نکل آئے بہشت شب تنہائی سے اور کچھ لوگ حجابوں سے نکل آئے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2