خزاں کا قرض تو اک اک درخت پر ہے یہاں
خزاں کا قرض تو اک اک درخت پر ہے یہاں یہ اور بات کہ ہر شاخ بار ور ہے یہاں جو سوچ سکتا ہے وہ ذہن جل رہا ہے ابھی جو دیکھ سکتی ہے وہ آنکھ خوں میں تر ہے یہاں سنے گا کون ان آنکھوں کی بے صدا فریاد سماعتوں کا تو انداز ہی دگر ہے یہاں ستایا آج مناسب جگہ پہ بارش نے اسی بہانے ٹھہر جائیں اس کا ...