Iqbal Ashhar Quraishi

اقبال اشہر قریشی

اقبال اشہر قریشی کی غزل

    خزاں کا قرض تو اک اک درخت پر ہے یہاں

    خزاں کا قرض تو اک اک درخت پر ہے یہاں یہ اور بات کہ ہر شاخ بار ور ہے یہاں جو سوچ سکتا ہے وہ ذہن جل رہا ہے ابھی جو دیکھ سکتی ہے وہ آنکھ خوں میں تر ہے یہاں سنے گا کون ان آنکھوں کی بے صدا فریاد سماعتوں کا تو انداز ہی دگر ہے یہاں ستایا آج مناسب جگہ پہ بارش نے اسی بہانے ٹھہر جائیں اس کا ...

    مزید پڑھیے

    عجب نقوش ہیں چہرہ تو ایسا تھا ہی نہیں

    عجب نقوش ہیں چہرہ تو ایسا تھا ہی نہیں یہ میرا عکس نہیں ہے کہ آئینہ ہی نہیں لکھوں وہ بات کہ شدت سے ہو تجھے محسوس مرے قلم میں شب ہجر کی سیاہی نہیں پھرا رہا ہے زمانے سے راستوں کا طلسم غریب شہر ابھی معتبر ہوا ہی نہیں کھرچ لے ذہن سے سارے تأثرات کہ اب تری بہار کا موسم تو آئے گا ہی ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے بچھڑے ہو تو رہ جاؤ گے تنہا بھی نہیں

    مجھ سے بچھڑے ہو تو رہ جاؤ گے تنہا بھی نہیں میں تمہیں یاد نہیں آؤں گا ایسا بھی نہیں میں نے دامن بھی بچایا تو گنہ گار ہوا اور پھر یوں ہوا غرقاب کہ ابھرا بھی نہیں وہ ترا ضبط محبت ہو کہ دنیا کا نفاق سب ہی اپنے ہیں کوئی درد پرایا بھی نہیں قدرداں چاہنے والوں کے عجب ہوتے ہیں اس نے ...

    مزید پڑھیے

    تو مری بات کے جادو میں تو آ ہی جاتا

    تو مری بات کے جادو میں تو آ ہی جاتا چاہتا میں تو ترے دل میں سما ہی جاتا بہہ گئی ایک صدا سیل صدا میں ورنہ میں ترے شہر میں اک شور اٹھا ہی جاتا وہ اگر دیکھ چکا تھا کئی نیلی لاشیں کیا ضروری تھا کہ پھر زہر چکھا ہی جاتا ہم تو کیا خود اسے معلوم تھا انجام اپنا دیکھنے کے لئے کون اس کی ...

    مزید پڑھیے

    مبارک ہو یہ طرز بے رخی یہ حوصلہ تجھ کو

    مبارک ہو یہ طرز بے رخی یہ حوصلہ تجھ کو مجھے تو بھول جائے اتنی خوشیاں دے خدا تجھ کو ہزاروں عکس لہراتے ہیں سطح آب دیدہ پر کسے نابود کر دینا ہے طوفان بلا تجھ کو کہیں خودداریاں تنہائیوں سے جھینپ جاتی ہیں مرے کچھ شعر پڑھ لینا مزہ آ جائے گا تجھ کو وقار شخصیت میں فرق تو پڑتا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ گھر سراب تمنا دکھائی دیتا ہے

    یہ گھر سراب تمنا دکھائی دیتا ہے جسے بھی دیکھیے پیاسا دکھائی دیتا ہے یہ کائنات بھی اک خواب نا تمام سی ہے اور اس کا سلسلہ دھوکا دکھائی دیتا ہے قریب آئے تو لگتا ہے جسم خوشبو کا وہ دور سے کوئی شعلہ دکھائی دیتا ہے میں اک مکان کی تعریف کس طرح کر دوں یہ سارا شہر ہی اچھا دکھائی دیتا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی دریا ہوں جو کوزے میں سمٹ جاؤں گا

    کوئی دریا ہوں جو کوزے میں سمٹ جاؤں گا پیاس ہوں میں ترے ہونٹوں سے لپٹ جاؤں گا ایک آواز سے ملتی ہیں کئی آوازیں میں اندھیرے میں کسی سے بھی لپٹ جاؤں گا جس طرح چاہیے کر لیجئے نقطے کا شمار میں عدد کب ہوں کہ تعداد میں بٹ جاؤں گا غور کر ایک نیا شعر ہوں نقاد غزل تیرا بھیجا میں نہیں ہوں ...

    مزید پڑھیے

    خواہش ہمارے خون کی لبریز اب بھی ہے

    خواہش ہمارے خون کی لبریز اب بھی ہے کچھ نرم پڑ گئی ہے مگر تیز اب بھی ہے اس زندگی کے ساتھ بزرگوں نے دی ہمیں اک ایسی مصلحت جو شر انگیز اب بھی ہے حالانکہ اضطراب ہے ظاہر سکون سے کیا کیجیے اس کا لہجہ دل آویز اب بھی ہے مدت ہوئی شباب کے چرچے تھے شہر میں وہ زعفرانی رنگ ستم خیز اب بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہے سب کو دھن شکار کی کس کو یہ دھیان ہے

    ہے سب کو دھن شکار کی کس کو یہ دھیان ہے وہ شاخ کھوکھلی ہے کہ جس پر مچان ہے اک بار چوم لوں در و دیوار تو چلوں جیسا بھی ہے یہ میرا پرانا مکان ہے خود اپنا عکس دیکھ کے چکرا گیا ہوں میں آئینہ دیکھنا بھی کڑا امتحان ہے میں خود ہی زہر اس کے پیالے میں گھول دوں اور خود ہی یہ کہوں وہ بہت بد ...

    مزید پڑھیے

    میری خواہش نہ سہی تیرا ارادہ ہے ضرور

    میری خواہش نہ سہی تیرا ارادہ ہے ضرور سخت مشکل ہے کہ تجھ سا مجھے ہونا ہے ضرور کون سا رنج ہوا ہوش نہیں ہے لیکن اپنے ناخن سے ہی کھرچا ہوا سینہ ہے ضرور اب وہ پہلی سی فضاؤں میں کدورت نہ رہی ہاں مری آنکھ میں ہلکا سا دھندلکا ہے ضرور ہم کو اس دور کی تاریخ تو لکھنی ہوگی ایک چھوٹا سا قلم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2