عجب نقوش ہیں چہرہ تو ایسا تھا ہی نہیں

عجب نقوش ہیں چہرہ تو ایسا تھا ہی نہیں
یہ میرا عکس نہیں ہے کہ آئینہ ہی نہیں


لکھوں وہ بات کہ شدت سے ہو تجھے محسوس
مرے قلم میں شب ہجر کی سیاہی نہیں


پھرا رہا ہے زمانے سے راستوں کا طلسم
غریب شہر ابھی معتبر ہوا ہی نہیں


کھرچ لے ذہن سے سارے تأثرات کہ اب
تری بہار کا موسم تو آئے گا ہی نہیں


ہزار قرب کی خوشبو نے بات کی اشہرؔ
وہ کیا سفر تھا مسافر تو کچھ کھلا ہی نہیں