Imtiyaz Danish Nadwi

امتیاز دانش ندوی

امتیاز دانش ندوی کی غزل

    وہی ہے شمس وہی چاند اور تارا بس

    وہی ہے شمس وہی چاند اور تارا بس ہے مدتوں سے فقط ایک ہی نظارا بس فنا تو مجھ کو مری موت بھی نہ کر پائی لباس خاک مرا اس نے ہے اتارا بس پتا نہیں تھا یہ رکھا تھا جب قدم میں نے کہ راہ عشق میں ہوتا ہے بس خسارا بس خلاف جس کے تھا اس نے بھی داد دی مجھ کو تھا لفظ لفظ مرا شعر استعارا بس تھی ...

    مزید پڑھیے

    تقاضے دہر کے دیں گے فراغ بھی کب تک

    تقاضے دہر کے دیں گے فراغ بھی کب تک رہے گا عرش پہ تیرا دماغ بھی کب تک رہے گی روشنی کب تک یہ دسترس میں مری جلے گا میرے لہو سے چراغ بھی کب تک ضمیر و دل کی صدا سنتے ہی نہیں ہو تم کہ دے گا ساتھ تمہارا دماغ بھی کب تک پتا نہیں یہ مرے دل کو بھی ہے جس کی تلاش ملے گا اس کا نہ جانے سراغ بھی کب ...

    مزید پڑھیے

    کوئی روزن نہ کوئی در ہوا ہے

    کوئی روزن نہ کوئی در ہوا ہے لہو سے تر بہ تر یہ سر ہوا ہے اٹھاتا ہی نہیں ہے فون جب سے علی گڑھ میں پروفیسر ہوا ہے میں جس سے چاہتا ہوں بچ کے رہنا اسی کا سامنا اکثر ہوا ہے گزاری جس نے ہے بے رہ روی میں وہی اس قوم کا رہبر ہوا ہے مری خانہ بدوشی قبر تک تھی گنوا دی جان تب یہ گھر ہوا ...

    مزید پڑھیے

    مشک سی چار سو ہوا میں ہے

    مشک سی چار سو ہوا میں ہے کون ہے کس کی بو ہوا میں ہے چومنا چاہے سب چراغوں کو کیسی لت کیسی خو ہوا میں ہے قتل کے بعد سب جلے ہوں گے رنگ پانی میں بو ہوا میں ہے جس نے للکارا تھا زمیں پہ کبھی آج وہ جنگجو ہوا میں ہے جنگ کیوں اس زمیں پہ جاری ہے جب ہمارا عدو ہوا میں ہے کیسے وہ ہر چراغ تک ...

    مزید پڑھیے

    وہ اب جنگ و جدل کچھ بھی نہیں ہے

    وہ اب جنگ و جدل کچھ بھی نہیں ہے نہیں دشت و جبل کچھ بھی نہیں ہے خسارے کا بدل کچھ بھی نہیں ہے مگر ماتھے پہ بل کچھ بھی نہیں ہے عجب خوش شکل اور خوش پوش ہے وہ شکن کوئی نہ شل کچھ بھی نہیں ہے ہر اک شے آسماں پر ہے سلامت زمیں پر بر محل کچھ بھی نہیں ہے اسے بھی کھو کے کتنے مطمئن ہیں وہ شے جس ...

    مزید پڑھیے

    کنواں بھی کھود لیا پھر بھی دل پریشاں ہے

    کنواں بھی کھود لیا پھر بھی دل پریشاں ہے اب اس علاقے سے بادل بہت گریزاں ہے بدن دریدہ زمیں دور تک ہے پھیلی ہوئی ہرا سا ایک شجر خود پہ کتنا نازاں ہے کہیں سے کوئی بھی خوش کن خبر نہیں آئی برا ہے وقت ابھی ہر خوشی گریزاں ہے بیان درد و الم اب کوئی کرے کس سے ہر ایک شخص کسی مسئلے میں غلطاں ...

    مزید پڑھیے

    لفظ کچھ اور ہیں ابرو کا اشارہ کچھ اور

    لفظ کچھ اور ہیں ابرو کا اشارہ کچھ اور اب کے لگتا ہے کہ ظالم کا ہے منشا کچھ اور مجھ کو معلوم نہ تھا ایسی بھی ہوتی ہوگی زندگی کا تھا تصور میں تو نقشا کچھ اور یوں خموشی سے نہاتا نہیں خوں میں اپنے اے مری خاک وطن تجھ سے ہے وعدہ کچھ اور بد گمانی بھی نہیں اتنی کسی سے اچھی میں نے کچھ اور ...

    مزید پڑھیے

    یزید وقت مرا خوں بہانا چاہتا ہے

    یزید وقت مرا خوں بہانا چاہتا ہے وہ کربلا میں مجھے پھر سے لانا چاہتا ہے اندھیری راتوں میں شب خون مارتا تھا جو وہ اب اجالے میں کھل کر بھی آنا چاہتا ہے پتا ہے اس کو یہ سارے چنے ہیں لوہے کے جگر تو دیکھیے پھر بھی چبانا چاہتا ہے عدو وہ تاج محل لال قلعہ کا ہی نہیں وہ ہر نشانی ہماری ...

    مزید پڑھیے