وہی ہے شمس وہی چاند اور تارا بس

وہی ہے شمس وہی چاند اور تارا بس
ہے مدتوں سے فقط ایک ہی نظارا بس


فنا تو مجھ کو مری موت بھی نہ کر پائی
لباس خاک مرا اس نے ہے اتارا بس


پتا نہیں تھا یہ رکھا تھا جب قدم میں نے
کہ راہ عشق میں ہوتا ہے بس خسارا بس


خلاف جس کے تھا اس نے بھی داد دی مجھ کو
تھا لفظ لفظ مرا شعر استعارا بس


تھی لوح دل پہ غزل میری پہلے سے موجود
اک ایک شعر کو قرطاس پر اترا بس


نظر میں کوئی بھی تصویر تھی نہیں موجود
خدا کو میں نے نمازوں میں ہے پکارا بس


وہی تو ایک سمیع و بصیر ہے دانشؔ
مصیبتوں میں اسی کو سدا پکارا بس