ہم آج کل ہیں نامہ نویسی کی تاؤ پر
ہم آج کل ہیں نامہ نویسی کی تاؤ پر دن بھر کبوتروں کو بھگاتے ہیں باؤ پر رندوں کو ایک روز تو دریا دلی دکھا کشتیٔ مے کو چھوڑ دے ساقی بہاؤ پر لکھوں وہ شعر عارض رنگیں کی وصف بیں تختہ چمن کا صدقے ہوں کاغذ کی ناؤ پر کچھ حاجت کباب نہیں کیف عشق میں سیخیں دل و جگر کی لگیں ہیں الاؤ پر بے ...