Iftikhar Arif

افتخار عارف

پاکستان کے اہم ترین شاعروں میں نمایاں، اپنی تہذیبی رومانیت کے لیے معروف

One of the most prominent Pakistani poets, famous for his cultural romanticism.

افتخار عارف کی غزل

    جنوں کا رنگ بھی ہو شعلۂ نمو کا بھی ہو

    جنوں کا رنگ بھی ہو شعلۂ نمو کا بھی ہو سکوت شب میں اک انداز گفتگو کا بھی ہو میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو وہ جس کے چاک گریباں پہ تہمتیں ہیں بہت اسی کے ہاتھ میں شاید ہنر رفو کا بھی ہو وہ جس کے ڈوبتے ہی ناؤ ڈگمگانے لگی کسے خبر وہی تارا ...

    مزید پڑھیے

    خوف کے سیل مسلسل سے نکالے مجھے کوئی

    خوف کے سیل مسلسل سے نکالے مجھے کوئی میں پیمبر تو نہیں ہوں کہ بچا لے مجھے کوئی اپنی دنیا کے مہ و مہر سمیٹے سر شام کر گیا جادۂ فردا کے حوالے مجھے کوئی اتنی دیر اور توقف کہ یہ آنکھیں بجھ جائیں کسی بے نور خرابے میں اجالے مجھے کوئی کس کو فرصت ہے کہ تعمیر کرے از سر نو خانۂ خواب کے ...

    مزید پڑھیے

    یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے

    یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے یہ شہر اب بھی اسی بے وفا کا لگتا ہے یہ تیرے میرے چراغوں کی ضد جہاں سے چلی وہیں کہیں سے علاقہ ہوا کا لگتا ہے دل ان کے ساتھ مگر تیغ اور شخص کے ساتھ یہ سلسلہ بھی کچھ اہل ریا کا لگتا ہے نئی گرہ نئے ناخن نئے مزاج کے قرض مگر یہ پیچ بہت ابتدا کا لگتا ...

    مزید پڑھیے

    دوست کیا خود کو بھی پرسش کی اجازت نہیں دی

    دوست کیا خود کو بھی پرسش کی اجازت نہیں دی دل کو خوں ہونے دیا آنکھ کو زحمت نہیں دی ہم بھی اس سلسلۂ عشق میں بیعت ہیں جسے ہجر نے دکھ نہ دیا وصل نے راحت نہیں دی ہم بھی اک شام بہت الجھے ہوئے تھے خود میں ایک شام اس کو بھی حالات نے مہلت نہیں دی عاجزی بخشی گئی تمکنت فقر کے ساتھ دینے والے ...

    مزید پڑھیے

    سر بام ہجر دیا بجھا تو خبر ہوئی

    سر بام ہجر دیا بجھا تو خبر ہوئی سر شام کوئی جدا ہوا تو خبر ہوئی مرا خوش خرام بلا کا تیز خرام تھا مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی مرے سارے حرف تمام حرف عذاب تھے مرے کم سخن نے سخن کیا تو خبر ہوئی کوئی بات بن کے بگڑ گئی تو پتہ چلا مرے بے وفا نے کرم کیا تو خبر ہوئی مرے ہم سفر کے سفر ...

    مزید پڑھیے

    کچھ بھی نہیں کہیں نہیں خواب کے اختیار میں

    کچھ بھی نہیں کہیں نہیں خواب کے اختیار میں رات گزار دی گئی صبح کے انتظار میں باب عطا کے سامنے اہل کمال کا ہجوم جن کو تھا سرکشی پہ ناز وہ بھی اسی قطار میں جیسے فساد خون سے جلد بدن پہ داغ برص دل کی سیاہیاں بھی ہیں دامن داغدار میں وقت کی ٹھوکروں میں ہے عقدہ کشائیوں کو زعم کیسی الجھ ...

    مزید پڑھیے

    منصب نہ کلاہ چاہتا ہوں

    منصب نہ کلاہ چاہتا ہوں تنہا ہوں گواہ چاہتا ہوں اے اجر عظیم دینے والے! توفیق گناہ چاہتا ہوں میں شعلگئ وجود کے بیچ اک خط سیاہ چاہتا ہوں ڈرتا ہوں بہت بلندیوں سے پستی سے نباہ چاہتا ہوں وہ دن کہ تجھے بھی بھول جاؤں اس دن سے پناہ چاہتا ہوں

    مزید پڑھیے

    حامی بھی نہ تھے منکر غالبؔ بھی نہیں تھے

    حامی بھی نہ تھے منکر غالبؔ بھی نہیں تھے ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے اس بار بھی دنیا نے ہدف ہم کو بنایا اس بار تو ہم شہہ کے مصاحب بھی نہیں تھے بیچ آئے سر قریۂ زر جوہر پندار جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

    ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں وہ جس کے نام کی نسبت سے روشنی تھا وجود کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں جنہیں متاع دل و جاں سمجھ رہے تھے ہم وہ آئنے بھی ہوئے بے حجاب آنکھوں میں عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے وہ دن بھی تھے کہ کھلے تھے ...

    مزید پڑھیے

    ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

    ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا تھکے ہارے ہوئے سورج کی بھیگی روشنی میں ہواؤں سے الجھتا بادباں کیسا لگے گا جمے قدموں کے نیچے سے پھسلتی جائے گی ریت بکھر جائے گی جب عمر رواں کیسا لگے گا اسی مٹی میں مل جائے گی پونجی عمر بھر کی گرے گی جس گھڑی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5