ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں


وہ جس کے نام کی نسبت سے روشنی تھا وجود
کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں


جنہیں متاع دل و جاں سمجھ رہے تھے ہم
وہ آئنے بھی ہوئے بے حجاب آنکھوں میں


عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے
وہ دن بھی تھے کہ کھلے تھے گلاب آنکھوں میں


مرے غزال تری وحشتوں کی خیر کہ ہے
بہت دنوں سے بہت اضطراب آنکھوں میں


نہ جانے کیسی قیامت کا پیش خیمہ ہے
یہ الجھنیں تری بے انتساب آنکھوں میں


جواز کیا ہے مرے کم سخن بتا تو سہی
بہ نام خوش نگہی ہر جواب آنکھوں میں