شیشے کا آدمی ہوں مری زندگی ہے کیا
شیشے کا آدمی ہوں مری زندگی ہے کیا پتھر ہیں سب کے ہاتھ میں مجھ کو کمی ہے کیا اب شہر میں وہ پھول سے چہرے نہیں رہے کیسی لگی ہے آگ یہ بستی ہوئی ہے کیا میں جل رہا ہوں اور کوئی دیکھتا نہیں آنکھیں ہیں سب کے پاس مگر بے بسی ہے کیا تم دوست ہو تو مجھ سے ذرا دشمنی کرو کچھ تلخیاں نہ ہوں تو ...