Ibrahim Ashk

ابراہیم اشکؔ

فلم ’کہو نہ پیار ہے‘ کے نغموں کے لیے مشہور

Film Lyricist, famous for his lyrics in the film 'Kaho na pyar hai'

ابراہیم اشکؔ کی غزل

    شیشے کا آدمی ہوں مری زندگی ہے کیا

    شیشے کا آدمی ہوں مری زندگی ہے کیا پتھر ہیں سب کے ہاتھ میں مجھ کو کمی ہے کیا اب شہر میں وہ پھول سے چہرے نہیں رہے کیسی لگی ہے آگ یہ بستی ہوئی ہے کیا میں جل رہا ہوں اور کوئی دیکھتا نہیں آنکھیں ہیں سب کے پاس مگر بے بسی ہے کیا تم دوست ہو تو مجھ سے ذرا دشمنی کرو کچھ تلخیاں نہ ہوں تو ...

    مزید پڑھیے

    محبتوں میں جو مٹ مٹ کے شاہکار ہوا

    محبتوں میں جو مٹ مٹ کے شاہکار ہوا وہ شخص کتنا زمانے میں یادگار ہوا تری ہی آس میں گزرے ہیں دھوپ چھاؤں سے ہم تری ہی پیاس میں صحرا بھی خوش گوار ہوا نہ جانے کتنی بہاروں کی دے گیا خوشبو وہ اک بدن جو ہمارے گلے کا ہار ہوا تمہارے بعد تو ہر اک قدم ہے بن باس ہمارا شہر کے لوگوں میں کب شمار ...

    مزید پڑھیے

    روبرو ان کے کوئی حرف ادا کیا کرتے

    روبرو ان کے کوئی حرف ادا کیا کرتے درد تو ہم کو چھپانا تھا صدا کیا کرتے بے وفائی بھی وفا ہی کی طرح کی اس نے ایسے انسان سے کرتے تو گلہ کیا کرتے چھن گئیں ہاتھ اٹھانے سے دعائیں مہنگی حوصلہ پھر وہ دعاؤں کا بھلا کیا کرتے کچھ تو آتے رہے امید کے جھونکے ورنہ اتنا شاداب مجھے آب و ہوا کیا ...

    مزید پڑھیے

    رات بھر تنہا رہا دن بھر اکیلا میں ہی تھا

    رات بھر تنہا رہا دن بھر اکیلا میں ہی تھا شہر کی آبادیوں میں اپنے جیسا میں ہی تھا میں ہی دریا میں ہی طوفاں میں ہی تھا ہر موج بھی میں ہی خود کو پی گیا صدیوں سے پیاسا میں ہی تھا کس لیے کترا کے جاتا ہے مسافر دم تو لے آج سوکھا پیڑ ہوں کل تیرا سایا میں ہی تھا کتنے جذبوں کی نرالی ...

    مزید پڑھیے

    اس کی اک دنیا ہوں میں اور میری اک دنیا ہے وہ

    اس کی اک دنیا ہوں میں اور میری اک دنیا ہے وہ دشت میں تنہا ہوں میں اور شہر میں تنہا ہے وہ میں بھی کیسا آئنہ ہوں آئنہ در آئنہ دور تک چہرہ بہ چہرہ بس نظر آتا ہے وہ اس کی خوش بو سے مہک کر پھول بن جاتا ہے دل موسم گل کی طرح آتا ہے وہ جاتا ہے وہ زندگی اپنی مسلسل چاہتوں کا اک سفر اس سفر میں ...

    مزید پڑھیے

    انا نے ٹوٹ کے کچھ فیصلہ کیا ہی نہیں

    انا نے ٹوٹ کے کچھ فیصلہ کیا ہی نہیں بیان اپنا کبھی مدعا کیا ہی نہیں ہر ایک شخص کو انسان ہی رکھا ہم نے کہ آدمی کو نظر میں خدا کیا ہی نہیں بس ایک بار ہی توڑا جہاں نے عہد وفا کسی سے ہم نے پھر عہد وفا کیا ہی نہیں کئی دشاؤں سے گزرا ہے کاروان حیات ٹھہر کے دل کو کہیں مبتلا کیا ہی ...

    مزید پڑھیے

    دیکھا تو کوئی اور تھا سوچا تو کوئی اور

    دیکھا تو کوئی اور تھا سوچا تو کوئی اور جب آ کے ملا اور تھا چاہا تو کوئی اور اس شخص کے چہرے میں کئی رنگ چھپے تھے چپ تھا تو کوئی اور تھا بولا تو کوئی اور دو چار قدم پر ہی بدلتے ہوئے دیکھا ٹھہرا تو کوئی اور تھا گزرا تو کوئی اور تم جان کے بھی اس کو نہ پہچان سکو گے انجانے میں وہ اور ہے ...

    مزید پڑھیے

    میں کب رہین ریگ بیابان یاس تھا

    میں کب رہین ریگ بیابان یاس تھا صد خیمۂ بہار مرے آس پاس تھا توڑا ہے بارہا مجھے دل کی شکست نے چہرہ مگر ذرا بھی نہ میرا اداس تھا صحرائے جاں کی دھوپ میں تھیں وحشتیں بہت لیکن نہ میرا عزم کہیں بدحواس تھا یہ اور بات ہے کہ برہنہ تھی زندگی موجود پھر بھی میرے بدن پر لباس تھا میں نے ہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2