روبرو ان کے کوئی حرف ادا کیا کرتے
روبرو ان کے کوئی حرف ادا کیا کرتے
درد تو ہم کو چھپانا تھا صدا کیا کرتے
بے وفائی بھی وفا ہی کی طرح کی اس نے
ایسے انسان سے کرتے تو گلہ کیا کرتے
چھن گئیں ہاتھ اٹھانے سے دعائیں مہنگی
حوصلہ پھر وہ دعاؤں کا بھلا کیا کرتے
کچھ تو آتے رہے امید کے جھونکے ورنہ
اتنا شاداب مجھے آب و ہوا کیا کرتے
اپنے معیار سے گرنا نہیں آیا ہم کو
اپنے کردار کو ہم اس سے سوا کیا کرتے
جب بھی آیا کوئی اچھا ہی خیال آیا ہے
اشکؔ ہم جیسے زمانے کا برا کیا کرتے