Ibraheem Khaleel

ابراہیم خلیل

  • 1916 - 1992

ابراہیم خلیل کی غزل

    ترے خیال کی جنت میں کھو گیا ہوں میں

    ترے خیال کی جنت میں کھو گیا ہوں میں اب اپنے آپ کو رہ رہ کے ڈھونڈھتا ہوں میں ہجوم شورش جلوہ سے آشنا ہوں میں اک اجنبی سا الگ دور جا کھڑا ہوں میں حریم ناز میں بے وقت آ گیا یہ بجا حضور سوچیں تو کیا کوئی دوسرا ہوں میں شب فراق میں اک آس لے کے وعدوں کی چراغ اشک لئے راہ پر کھڑا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    اٹھو اس شان سے کہ وقت کے دھارے بدل ڈالو

    اٹھو اس شان سے کہ وقت کے دھارے بدل ڈالو نگاہیں تھک چکیں جن سے وہ نظارے بدل ڈالو زمانہ تشنہ کام امن ہے تسکیں کا بھوکا ہے چلو ظلم و تشدد خیز گہوارے بدل ڈالو تمہارے ہاتھ میں آنے کو ہے پھر گردش دوراں عزائم اپنے بھی کچھ اے مرے پیارے بدل ڈالو یہاں تو سب کو جینا ہے سبھی کو جینے دینا ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کی شب جو طبیعت کبھی گھبرائی ہے

    ہجر کی شب جو طبیعت کبھی گھبرائی ہے تو نہ آیا تو تیری یاد بہت آئی ہے پر خطر کتنی یہ ماحول کی تنہائی ہے دل سے اک بات نہ نکلی تھی کہ اک آئی ہے دست الفت دل بے کل کی طرف یوں لائے کوئی سمجھے یہ ترا ناز ہے انگڑائی ہے حادثے ہیں ابھی کتنے اسی خطرے کے تحت اس میں رسوائی ہے اس میں تری رسوائی ...

    مزید پڑھیے

    رخ پہ اپنے نقاب رہنے دے

    رخ پہ اپنے نقاب رہنے دے درمیاں اک حجاب رہنے دے سعی پیہم کی سسکیوں پہ نہ جا شوق میں پیچ و تاب رہنے دے دل کا آئینہ ہے جواب ترا ہے بھی تو لا جواب رہنے دے جرم میرے کہاں تری رحمت یہ حساب و کتاب رہنے دے پھر کہیں کھو کے رہ نہ جائے خلیلؔ اذن چنگ و رباب رہنے دے

    مزید پڑھیے