اٹھو اس شان سے کہ وقت کے دھارے بدل ڈالو

اٹھو اس شان سے کہ وقت کے دھارے بدل ڈالو
نگاہیں تھک چکیں جن سے وہ نظارے بدل ڈالو


زمانہ تشنہ کام امن ہے تسکیں کا بھوکا ہے
چلو ظلم و تشدد خیز گہوارے بدل ڈالو


تمہارے ہاتھ میں آنے کو ہے پھر گردش دوراں
عزائم اپنے بھی کچھ اے مرے پیارے بدل ڈالو


یہاں تو سب کو جینا ہے سبھی کو جینے دینا ہے
طریقہ وہ جو اپنا یہ بھی حق مارے بدل ڈالو


خلیلؔ اک جان ہو جانا ضروری ہے زمانے میں
خلل انداز شیرازے کے شہ پارے بدل ڈالو