ہجر کی شب جو طبیعت کبھی گھبرائی ہے
ہجر کی شب جو طبیعت کبھی گھبرائی ہے
تو نہ آیا تو تیری یاد بہت آئی ہے
پر خطر کتنی یہ ماحول کی تنہائی ہے
دل سے اک بات نہ نکلی تھی کہ اک آئی ہے
دست الفت دل بے کل کی طرف یوں لائے
کوئی سمجھے یہ ترا ناز ہے انگڑائی ہے
حادثے ہیں ابھی کتنے اسی خطرے کے تحت
اس میں رسوائی ہے اس میں تری رسوائی ہے
وہ ترے سر کی قسم کھاتے ہیں یعنی کہ خلیلؔ
ایک کافر نے مسلماں کی قسم کھائی ہے