Husain Abid

حسین عابد

حسین عابد کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    خیالوں خیالوں میں کس پار اترے

    خیالوں خیالوں میں کس پار اترے نہ دشمن کوئی ناں جہاں یار اترے گرفتار ہے سحر آئینہ گر کا پس آئینہ کس طرح یار اترے زبان و بیاں داستاں سب بدل دے کہانی میں ایسا بھی کردار اترے تصور میں تو گنگناتی ندی تھی سمندر میں کیسے یہ سرکار اترے سو گردن جھکا کر نگاہ تان لی ہے کہ انکار و اقرار ...

    مزید پڑھیے

    قدم کہیں پہ ارادہ کہیں کا رکھتے ہیں

    قدم کہیں پہ ارادہ کہیں کا رکھتے ہیں خلا میں رہتے ہیں منظر زمیں کا رکھتے ہیں یہ کون ان کی نظر واہموں سے بھرتا ہے جو اپنے بستے میں نامہ یقیں کا رکھتے ہیں یہ کیا کہ روح کی کوئی زمیں نہ کوئی وطن جہاں کی مٹی ہو اس کو وہیں کا رکھتے ہیں اسی لیے تو پرندوں کے پر نکلتے ہیں کہ آستاں نہ ...

    مزید پڑھیے

    راحت و رنج سے جدا ہو کر

    راحت و رنج سے جدا ہو کر بیٹھ رہیے کہیں خدا ہو کر لوٹ آیا ہے آنکھ کے در پر خواب تعبیر سے رہا ہو کر لطف آیا نظر کو جلنے میں چاند کے سامنے دیا ہو کر اے مرے شعر اپنی تابانی دیکھ اس شوخ سے ادا ہو کر حبس ہوتا گیا خمار اپنا رنگ اڑتے گئے ہوا ہو کر خیمۂ گل لپیٹ لے ہمدم دیکھ صرصر چلی صبا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی وفور تمنا کبھی ملامت نے

    کبھی وفور تمنا کبھی ملامت نے تھکا دیا ہے بدن روز کی خجالت نے میں زخم زخم تھا بستر کی سلوٹوں میں گھرا مرا جو حال کیا صبح کی ملاحت نے فضائے جبر تجھے چاک چاک کر دیں گے نگل لیے جو ستارے تری کثافت نے کسی جمال کی چھب ہو کسی کمال کی ضو اجاڑ ڈالا ہے پژمردگی کی عادت نے ہم ایسے کون سے غرق ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹ کر گرتی فصیلوں پر ہوا کا شور تھا

    ٹوٹ کر گرتی فصیلوں پر ہوا کا شور تھا رات بھر شہر بدن میں کس بلا کا شور تھا دھوپ نکلی تو وہی پیاسی زمیں کے ہونٹ تھے بستیوں میں دور تک گہری گھٹا کا شور تھا طائر خوشبو کے حق میں ہجرتیں ورثہ ہوئیں خیمہ گاہ گل میں وہ باد صبا کا شور تھا شہر سارا خوف کے گونگے قلعے میں قید تھا اک خدائے ...

    مزید پڑھیے

تمام

7 نظم (Nazm)

    میدان

    خیال شیطان کی آنت کی طرح عمودی دوری کے میدان میں کھڑا ہے دوستوں کے حج کا زمانہ ان کے گرد طواف کرتا رہتا ہے بہتے پانی میں ہاتھ ڈبو کر تمہیں چھو لیتا ہوں شیشم کے پیڑ پہ فاختہ بولتی رہتی ہے میرے پاس صرف میرا راستہ ہے جس سے میں انجان ہوں دھوپ کے کھیل میں سایوں سے نہیں الجھنا چاہئے

    مزید پڑھیے

    کھڈیوں پر بنے لوگ

    لوگ مرتے ہیں تھری پیس سوٹ میں تنگ ہوتی وردی میں ٹخنے تقسیم کرتی شلواروں گھٹی تمنا یا وصل کے سیال سے چپکتے زیر جاموں میں انسان انہیں دکھتا ہے آخری رسومات کے دوران یا جب اسے وصل کے غار سے دھکیلا جاتا ہے کھڈیوں پر بنے لوگ عمر بھر ایک دوسرے کو انسان کی باتیں سناتے ہیں

    مزید پڑھیے

    ہرکولیس اور پاٹے خاں کی سرکس

    یہ بے ہنگم بے ڈھب دنیا ہر متناسب سوچ کو پوجا کے پرشاد سے فربہ کر دیتی ہے یا تنگی کی چکی سے وہ خوراک کھلاتی ہے سوچ کی آنکھیں دھنس جاتی ہیں کان لٹک جاتے ہیں کسی سڈول خیال کو محبوبہ نہیں ملتی حاسد بھول بھلیاں اسے جواں ہونے سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں ہرکولیس اور پاٹے‌ خاں کی سرکس سے ...

    مزید پڑھیے

    روشنی میں کھوئی گئی روشنی

    میں نے اسے نہیں دیکھا جب تک اس نے سارے چراغ گل نہیں کر دیے اندھیرے میں مجھے چاروں طرف وہی نظر آئی ڈراؤنے جنگل میں رستہ بناتے جگنوؤں کی طرح ہو سکتا ہے میں حادثاتی طور پر روشنی میں آ جاؤں لیکن اب وہ جان چکی ہے چراغ جلتے ہی مجھے جگنو نظر آنا بند ہو جاتے ہیں

    مزید پڑھیے

    پھر کوئی پیڑ نکل آتا ہے

    بیٹھے بیٹھے رستے نکل آتے ہیں چلتے چلتے گم جاتے ہیں پھر کوئی پیڑ نکل آتا ہے جس کے نیچے بیٹھ کے ہم گم رستے دہراتے ہیں لمحہ بھر سستاتے ہیں بیٹھے بیٹھے رستے نکل آتے ہیں

    مزید پڑھیے

تمام