Husain Abid

حسین عابد

حسین عابد کی نظم

    میدان

    خیال شیطان کی آنت کی طرح عمودی دوری کے میدان میں کھڑا ہے دوستوں کے حج کا زمانہ ان کے گرد طواف کرتا رہتا ہے بہتے پانی میں ہاتھ ڈبو کر تمہیں چھو لیتا ہوں شیشم کے پیڑ پہ فاختہ بولتی رہتی ہے میرے پاس صرف میرا راستہ ہے جس سے میں انجان ہوں دھوپ کے کھیل میں سایوں سے نہیں الجھنا چاہئے

    مزید پڑھیے

    کھڈیوں پر بنے لوگ

    لوگ مرتے ہیں تھری پیس سوٹ میں تنگ ہوتی وردی میں ٹخنے تقسیم کرتی شلواروں گھٹی تمنا یا وصل کے سیال سے چپکتے زیر جاموں میں انسان انہیں دکھتا ہے آخری رسومات کے دوران یا جب اسے وصل کے غار سے دھکیلا جاتا ہے کھڈیوں پر بنے لوگ عمر بھر ایک دوسرے کو انسان کی باتیں سناتے ہیں

    مزید پڑھیے

    ہرکولیس اور پاٹے خاں کی سرکس

    یہ بے ہنگم بے ڈھب دنیا ہر متناسب سوچ کو پوجا کے پرشاد سے فربہ کر دیتی ہے یا تنگی کی چکی سے وہ خوراک کھلاتی ہے سوچ کی آنکھیں دھنس جاتی ہیں کان لٹک جاتے ہیں کسی سڈول خیال کو محبوبہ نہیں ملتی حاسد بھول بھلیاں اسے جواں ہونے سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں ہرکولیس اور پاٹے‌ خاں کی سرکس سے ...

    مزید پڑھیے

    روشنی میں کھوئی گئی روشنی

    میں نے اسے نہیں دیکھا جب تک اس نے سارے چراغ گل نہیں کر دیے اندھیرے میں مجھے چاروں طرف وہی نظر آئی ڈراؤنے جنگل میں رستہ بناتے جگنوؤں کی طرح ہو سکتا ہے میں حادثاتی طور پر روشنی میں آ جاؤں لیکن اب وہ جان چکی ہے چراغ جلتے ہی مجھے جگنو نظر آنا بند ہو جاتے ہیں

    مزید پڑھیے

    پھر کوئی پیڑ نکل آتا ہے

    بیٹھے بیٹھے رستے نکل آتے ہیں چلتے چلتے گم جاتے ہیں پھر کوئی پیڑ نکل آتا ہے جس کے نیچے بیٹھ کے ہم گم رستے دہراتے ہیں لمحہ بھر سستاتے ہیں بیٹھے بیٹھے رستے نکل آتے ہیں

    مزید پڑھیے

    سانس بھر ہوا

    میں ایک ہی سانس میں بہت سی زندگیاں جی لیتا ہوں کھلتی کلی سے گزرتا جھونکا فتح مند کھلاڑی کا اڑتا پسینہ وصل کی لذت سے مغلوب عورت کی کراہ سر شام دیا بجھاتے نوجوان شاعر کی پھونک بارش میں گرتی کچی چھت کا بوجھل غبار مرنے والے کے سینے سے نکلی آخری آہ میں ایک ہی سانس میں بہت سی موتیں مر ...

    مزید پڑھیے

    بھاری بستہ

    چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی چپل میری نیکر کی جیبوں میں ہوتی تھی بستہ کندھے پر پھینکے تختی لہراتا بھاگ نکلتا تھا پھر یہ گھوڑے شوڑے میرے آگے بچے ہوتے تھے پر میرے بچے علم کی ڈگڈگی جاہل کے ہاتھ آ جائے تو بستے بھارتی ہو جاتے ہیں اتنے بھاری ہو جاتے ہیں چھٹی کی گھنٹی سے گھٹنے بج اٹھتے ...

    مزید پڑھیے