قدم کہیں پہ ارادہ کہیں کا رکھتے ہیں
قدم کہیں پہ ارادہ کہیں کا رکھتے ہیں
خلا میں رہتے ہیں منظر زمیں کا رکھتے ہیں
یہ کون ان کی نظر واہموں سے بھرتا ہے
جو اپنے بستے میں نامہ یقیں کا رکھتے ہیں
یہ کیا کہ روح کی کوئی زمیں نہ کوئی وطن
جہاں کی مٹی ہو اس کو وہیں کا رکھتے ہیں
اسی لیے تو پرندوں کے پر نکلتے ہیں
کہ آستاں نہ بکھیڑا جبیں کا رکھتے ہیں
اسی کے فیض سے نا مہرباں ہوا ہے دل
مکاں مزاج ہمیشہ مکیں کا رکھتے ہیں