ٹوٹ کر گرتی فصیلوں پر ہوا کا شور تھا
ٹوٹ کر گرتی فصیلوں پر ہوا کا شور تھا
رات بھر شہر بدن میں کس بلا کا شور تھا
دھوپ نکلی تو وہی پیاسی زمیں کے ہونٹ تھے
بستیوں میں دور تک گہری گھٹا کا شور تھا
طائر خوشبو کے حق میں ہجرتیں ورثہ ہوئیں
خیمہ گاہ گل میں وہ باد صبا کا شور تھا
شہر سارا خوف کے گونگے قلعے میں قید تھا
اک خدائے وقت کی حاکم صدا کا شور تھا
وہ فقط اک شور تھا ہم پر پس مقتل کھلا
حلقۂ یاراں میں جو رسم وفا کا شور تھا