جیسے جیسے درد کا پندار بڑھتا جائے ہے
جیسے جیسے درد کا پندار بڑھتا جائے ہے اعتماد لذت آزار بڑھتا جائے ہے دل امڈتا آئے ہے مٹی ہوئی جاتی ہے نم زندگی پر زندگی کا بار بڑھتا جائے ہے یہ نہ پوچھو دیکھتا جاتا ہے مڑ مڑ کر کسے ایک دیوانہ کہ سوئے دار بڑھتا جائے ہے کچھ نہ کچھ ہونا ہے آخر تپ کے کندن جل کے راکھ دل کی جانب شعلۂ ...