حمیرا رحمان کی غزل

    قیامتیں گزر گئیں روایتوں کی سوچ میں

    قیامتیں گزر گئیں روایتوں کی سوچ میں خلش جو تھی وہی رہی محبتوں کی سوچ میں یہ اب کھلا کہ اس کی شاعری میں میری بات کا جو رنگ خاص تھا مٹا اضافتوں کی سوچ میں میں اپنے چہرۂ جنوں کو آئنے میں دیکھ لوں تو عکس بجھ نہ جائے گا حقیقتوں کی سوچ میں میں اپنی دھوپ چھاؤں کی ضمانتیں نہ دے سکوں تو ...

    مزید پڑھیے

    ان لفظوں میں خود کو ڈھونڈوں گی میں بھی

    ان لفظوں میں خود کو ڈھونڈوں گی میں بھی اپنی انا کا منظر دیکھوں گی میں بھی کوئی مرے بارے میں نہ کچھ بھی جان سکے اب ایسا لہجہ اپناؤں گی میں بھی آنکھوں سے چن کر سب ٹوٹے پھوٹے خواب پتھر کی خواہش بن جاؤں گی میں بھی میں خود اپنی سوچ کی مجرم ٹھہری ہوں اب یہ عدالت خود ہی جھیلوں گی میں ...

    مزید پڑھیے

    جیسے کوئی ضدی بچہ کب بہلے بہلانے سے

    جیسے کوئی ضدی بچہ کب بہلے بہلانے سے ایسے ہم دنیا سے چھپ کر دیکھیں خواب سہانے سے سب کچھ سمجھے لیکن اتنی بات نہیں پہچانے لوگ مل جاتا ہے چین کسی کو ایک تمہارے آنے سے ہم تو غم کی ایک اک شدت باہر آنے سے روکیں اس کی آنکھیں باز نہ آئیں انگارے برسانے سے لوگو! ہم پردیسی ہو کر جانے کیا ...

    مزید پڑھیے

    طبیعت ان دنوں اوہام کی ان منزلوں پر ہے

    طبیعت ان دنوں اوہام کی ان منزلوں پر ہے دل کم حوصلہ کاغذ کی گیلی کشتیوں پر ہے گذشتہ موسموں میں بجھ گئے ہیں رنگ پھولوں کے دریچہ اب بھی میرا روشنی کے زاویوں پر ہے ہزاروں آبنوسی جنگلوں کا حسن کیا معنی ہمیں جب سانس لینا کیمیائی تجربوں پر ہے کڑھا ہے میری اجرک پر بلوچی کام شیشے ...

    مزید پڑھیے

    گر اس سے ربط مرا صرف اختلافی تھا

    گر اس سے ربط مرا صرف اختلافی تھا تو اس کا رد عمل قابل معافی تھا محبتوں میں مفادات کون یاد رکھے سو ہم کو اپنے لیے ایک نام کافی تھا چراغ جب بھی جلایا کوئی تو گل نہ کیا یہ روشنی کی روایات کے منافی تھا اسے خیال تھا میری شکستہ پائی کا یہ جاننا بھی تو اس زخم کی تلافی تھا حمیراؔ عمر ...

    مزید پڑھیے

    دل کو درون خواب کا موسم بوجھل رکھتا ہے

    دل کو درون خواب کا موسم بوجھل رکھتا ہے اک ان جانے خوف سے واقف ہر پل رکھتا ہے وہ جو بظاہر ہر ذرہ ہے تیز ہواؤں میں اپنے ہونے کا احساس مکمل رکھتا ہے ترک تعلق نے میری بھی سوچ کو بدلا نہیں وہ بھی شکایت اپنے ساتھ مسلسل رکھتا ہے ریگستان کا پودا ہوں میں اور بہت سیراب اپنا روپ رویہ مجھ ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی بات پر ناراض ہونا رنجشیں کرنا

    ذرا سی بات پر ناراض ہونا رنجشیں کرنا محبت میں اسے آتا نہیں گنجائشیں کرنا مری بیٹی نے مجھ کو دیکھ کر سیکھا ہے برسوں میں پرانا آئینہ رکھ کر نئی آرائشیں کرنا مری المایوں میں قیمتی سامان کافی تھا مگر اچھا لگا اس سے کئی فرمائشیں کرنا مجھے بچوں کی آنکھوں میں وہ سارے رنگ ملتے ...

    مزید پڑھیے

    فصیل شہر کی اتنی بلند و سخت ہوئی

    فصیل شہر کی اتنی بلند و سخت ہوئی کہ کل سپاہ مضامین تاج و تخت ہوئی بجھا چراغ تھی میں حاسدوں کی آنکھوں میں دعا کے شہر میں آئی تو سبز بخت ہوئی وہ لمحہ جب مرے بچے نے ماں پکارا مجھے میں ایک شاخ سے کتنا گھنا درخت ہوئی کسی نے سبز جزیرے پہ مجھ کو روک لیا سفر کے عزم کی ناؤ بھی لخت لخت ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کی تیز گامیوں کا انکشاف کیا کریں

    ہوا کی تیز گامیوں کا انکشاف کیا کریں جو دوش پر لیے ہو اس کے بر خلاف کیا کریں یقین اور گماں کی جنگ سے گریز تھا نہیں جو فیصلہ کیا ہے اس سے انحراف کیا کریں وہ دوسروں کی آنکھ کا غبار تو لیے رہے تو اپنے گرد گرد آئینے کو صاف کیا کریں جو منزلیں دکھائی تھیں وہ ممکنات میں سے تھیں پر اپنی ...

    مزید پڑھیے

    لوگ تو اک منظر ہیں تخت نشینوں کی خاطر

    لوگ تو اک منظر ہیں تخت نشینوں کی خاطر فرش بچھایا جاتا ہے قالینوں کی خاطر کتنی بے ترتیبی پھیلی کیا کچھ ٹوٹ گیا سجے سجائے گھر تھے انہی مکینوں کی خاطر ٹھہر گئے ہیں عین سفر میں بن سوچے سمجھے ہم سفری کے کچھ بے نام قرینوں کی خاطر جل بجھتے ہیں لوگ کسی کو فیض پہنچنے پر گر جاتے ہیں کچھ ...

    مزید پڑھیے