حمیرا راحتؔ کی غزل

    ہوا کے ساتھ یہ کیسا معاملہ ہوا ہے

    ہوا کے ساتھ یہ کیسا معاملہ ہوا ہے بجھا چکی تھی جسے وہ دیا جلا ہوا ہے حضور آپ کوئی فیصلہ کریں تو سہی ہیں سر جھکے ہوئے دربار بھی لگا ہوا ہے کھڑے ہیں سامنے کب سے مگر نہیں پڑھتے وہ ایک لفظ جو دیوار پر لکھا ہوا ہے ہے کس کا عکس جو دیکھا ہے آئینے سے الگ یہ کیسا نقش ہے جو روح پر بنا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    کہانی کو مکمل جو کرے وہ باب اٹھا لائی

    کہانی کو مکمل جو کرے وہ باب اٹھا لائی میں اس کی آنکھ کے ساحل سے اپنے خواب اٹھا لائی خوشی میری گوارہ تھی نہ قسمت کو نہ دنیا کو سو میں کچھ غم برائے خاطر احباب اٹھا لائی ہمیشہ کی طرح سر کو جھکایا اس کی خواہش پر اندھیرا خود لیا اس کے لیے مہتاب اٹھا لائی سمیٹے اس کے آنسو اپنے آنچل ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک خواب کی تعبیر تھوڑی ہوتی ہے

    ہر ایک خواب کی تعبیر تھوڑی ہوتی ہے محبتوں کی یہ تقدیر تھوڑی ہوتی ہے کبھی کبھی تو جدا بے سبب بھی ہوتے ہیں سدا زمانے کی تقصیر تھوڑی ہوتی ہے پلک پہ ٹھہرے ہوئے اشک سے کہا میں نے ہر ایک درد کی تشہیر تھوڑی ہوتی ہے سفر یہ کرتے ہیں اک دل سے دوسرے دل تک دکھوں کے پاؤں میں زنجیر تھوڑی ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    میں آب عشق میں حل ہو گئی ہوں

    میں آب عشق میں حل ہو گئی ہوں ادھوری تھی مکمل ہو گئی ہوں پلٹ کر پھر نہیں آتا کبھی جو میں وہ گزرا ہوا کل ہو گئی ہوں بہت تاخیر سے پایا ہے خود کو میں اپنے صبر کا پھل ہو گئی ہوں ملی ہے عشق کی سوغات جب سے اداسی تیرا آنچل ہو گئی ہوں سلجھنے سے الجھتی جا رہی ہوں میں اپنی زلف کا بل ہو گئی ...

    مزید پڑھیے

    کسی بھی رائیگانی سے بڑا ہے

    کسی بھی رائیگانی سے بڑا ہے یہ دکھ تو زندگانی سے بڑا ہے نہ ہم سے عشق کا مفہوم پوچھو یہ لفظ اپنے معانی سے بڑا ہے ہماری آنکھ کا یہ ایک آنسو تمہاری راجدھانی سے بڑا ہے گزر جائے گی ساری رات اس میں مرا قصہ کہانی سے بڑا ہے ترا خاموش سا اظہار راحتؔ کسی کی لن ترانی سے بڑا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2