حمیرا راحتؔ کی غزل

    وقت ایسا کوئی تجھ پر آئے

    وقت ایسا کوئی تجھ پر آئے خشک آنکھوں میں سمندر آئے میرے آنگن میں نہیں تھی بیری پھر بھی ہر سمت سے پتھر آئے راستہ دیکھ نہ گوری اس کا کب کوئی شہر میں جا کر آئے ذکر سنتی ہوں اجالے کا بہت اس سے کہنا کہ مرے گھر آئے نام لے جب بھی وفا کا کوئی جانے کیوں آنکھ مری بھر آئے

    مزید پڑھیے

    چراغ ہاتھ میں تھا تیر بھی کمان میں تھا

    چراغ ہاتھ میں تھا تیر بھی کمان میں تھا میں پھر بھی ہار گئی تو جو درمیان میں تھا میں آسماں کی حدوں کو بھی پار کر لیتی مگر وہ خوف جو حائل میری اڑان میں تھا تھی زخم زخم مگر خود کو ٹوٹنے نہ دیا سمندروں سے سوا حوصلہ چٹان میں تھا بدل بھی سکتا ہے اخبار کی خبر کی طرح ترا یہ وصف بھلا کب ...

    مزید پڑھیے

    یہ کہنا تھا جو دنیا کہہ رہی ہے

    یہ کہنا تھا جو دنیا کہہ رہی ہے یہ گنگا کب سے الٹی بہہ رہی ہے خبر ہے خواب ٹوٹے گا یقیناً مگر اک فاختہ دکھ سہہ رہی ہے لگی تھی اس کی بنیادوں میں دیمک سو اب دل کی عمارت ڈھ رہی ہے کہیں یہ خشک ہو جائے نہ ساتھی مرے دل میں جو ندیا بہہ رہی ہے ستارہ بند مٹھی میں ملے گا مری تقدیر مجھ سے کہہ ...

    مزید پڑھیے

    مثال خاک کہیں پر بکھر کے دیکھتے ہیں

    مثال خاک کہیں پر بکھر کے دیکھتے ہیں قرار مر کے ملے گا تو مر کے دیکھتے ہیں سنا ہے خواب مکمل کبھی نہیں ہوتے سنا ہے عشق خطا ہے سو کر کے دیکھتے ہیں کسی کی آنکھ میں ڈھل جاتا ہے ہمارا عکس جب آئینے میں کبھی بن سنور کے دیکھتے ہیں ہمارے عشق کی میراث ہے بس ایک ہی خواب تو آؤ ہم اسے تعبیر کر ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے عشق پہ دل کو جو مان تھا نہ رہا

    تمہارے عشق پہ دل کو جو مان تھا نہ رہا ستارہ ایک سر آسمان تھا نہ رہا وہ اور تھے کہ جو ناخوش تھے دو جہاں لے کر ہمارے پاس تو بس اک جہان تھا نہ رہا تو اپنی فتح کا اعلان کر میں ہار گئی وہ حوصلہ کہ مجھے جس پہ مان تھا نہ رہا وہی کہانی ہے کردار بھی وہی ہیں مگر جو ایک نام سر داستان تھا نہ ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں سے کسی خواب کو باہر نہیں دیکھا

    آنکھوں سے کسی خواب کو باہر نہیں دیکھا پھر عشق نے ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا یہ شہر صداقت ہے قدم سوچ کے رکھنا شانے پہ کسی کے بھی یہاں سر نہیں دیکھا ہم عمر بسر کرتے رہے میرؔ کی مانند کھڑکی کو کبھی کھول کے باہر نہیں دیکھا وہ عشق کو کس طرح سمجھ پائے گا جس نے صحرا سے گلے ملتے سمندر ...

    مزید پڑھیے

    وقت کی آنکھ سے کچھ خواب نئے مانگتا ہے

    وقت کی آنکھ سے کچھ خواب نئے مانگتا ہے دل مرا ایک دعا رات گئے مانگتا ہے ایک آواز تہہ آب بلاتی ہے مجھے عشق مجھ سے بھی وہی کچے گھڑے مانگتا ہے درد کہتا ہے کسی ساعت تنہا میں رہوں اک مکاں گہرے سمندر سے پرے مانگتا ہے ضبط چاہے اسے رخصت کی اجازت مل جائے اشک آنکھوں سے محبت کے صلے مانگتا ...

    مزید پڑھیے

    تعلق کی نئی اک رسم اب ایجاد کرنا ہے

    تعلق کی نئی اک رسم اب ایجاد کرنا ہے نہ اس کو بھولنا ہے اور نہ اس کو یاد کرنا ہے زبانیں کٹ گئیں تو کیا سلامت انگلیاں تو ہیں در و دیوار پہ لکھ دو تمہیں فریاد کرنا ہے ستارہ خوش گمانی کا سجایا ہے ہتھیلی پر کسی صورت ہمیں تو اپنے دل کو شاد کرنا ہے بنا کر ایک گھر دل کی زمیں پر اس کی ...

    مزید پڑھیے

    بارش کے قطرے کے دکھ سے ناواقف ہو

    بارش کے قطرے کے دکھ سے ناواقف ہو تم ہنستے چہرے کے دکھ سے ناواقف ہو تم نے صرف بچھڑ جانے کا کرب سہا ہے پا کر کھو دینے کے دکھ سے ناواقف ہو ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں ہم لیکن تم میرے لہجے کے دکھ سے ناواقف ہو ساتھ کسی کے رہ کر جو تنہا کٹتا ہے تم ایسے لمحے کے دکھ سے ناواقف ہو ہاتھوں ...

    مزید پڑھیے

    فسانہ اب کوئی انجام پانا چاہتا ہے

    فسانہ اب کوئی انجام پانا چاہتا ہے تعلق ٹوٹنے کو اک بہانہ چاہتا ہے جہاں اک شخص بھی ملتا نہیں ہے چاہنے سے وہاں یہ دل ہتھیلی پر زمانہ چاہتا ہے مجھے سمجھا رہی ہے آنکھ کی تحریر اس کی وہ آدھے راستے سے لوٹ جانا چاہتا ہے یہ لازم ہے کہ آنکھیں دان کر دے عشق کو وہ جو اپنے خواب کی تعبیر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2