Hilal Fareed

ہلال فرید

میڈیکل ڈاکٹر/ لندن میں مقیم

Medical doctor / Living in London

ہلال فرید کی غزل

    وہی ہوا کہ خود بھی جس کا خوف تھا مجھے

    وہی ہوا کہ خود بھی جس کا خوف تھا مجھے چراغ کو جلا کے بس دھواں ملا مجھے کبھی مٹا سکا نہ کوئی دوسرا مجھے شکست دے گئی مگر مری انا مجھے جواب اس سوال کا بھی دے ذرا مجھے اڑا کے لائی ہے یہاں پہ کیوں ہوا مجھے ہری بھری سی شاخ پر کھلا ہوا گلاب نہ جانے ایک خار کیوں چبھا گیا مجھے اس اجنبی ...

    مزید پڑھیے

    تھی عجب ہی داستاں جب تمام ہو گئی

    تھی عجب ہی داستاں جب تمام ہو گئی اک مثال بن گئی اک پیام ہو گئی رات جب جواں ہوئی جب دیوں کے سر اٹھے تب ہوا بھی اور کچھ تیز گام ہو گئی ایک بس نظر پڑی اس کے بعد یوں ہوا میں نے جو غزل لکھی تیرے نام ہو گئی مٹ رہی تھی تشنگی بڑھ رہی تھی دوستی پھر انا کی تیغ کیوں بے نیام ہو گئی فلسفے کو ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں وہ خواب نہیں بستے پہلا سا وہ حال نہیں ہوتا

    آنکھوں میں وہ خواب نہیں بستے پہلا سا وہ حال نہیں ہوتا اب فصل بہار نہیں آتی اور رنج و ملال نہیں ہوتا اس عقل کی ماری نگری میں کبھی پانی آگ نہیں بنتا یہاں عشق بھی لوگ نہیں کرتے یہاں کوئی کمال نہیں ہوتا ہم آج بہت ہی پریشاں ہیں اس وقت کے پھیر سے حیراں ہیں ہمیں لے کے چلو کسی ایسی طرف ...

    مزید پڑھیے

    وقت نے رنگ بہت بدلے کیا کچھ سیلاب نہیں آئے

    وقت نے رنگ بہت بدلے کیا کچھ سیلاب نہیں آئے مری آنکھیں کب ویران ہوئیں کب تیرے خواب نہیں آئے دل صحرا کا وہ تشنہ لب ہر بار یہی سوچا جس نے ممکن ہے کہ آگے دریا ہو اور کوئی سراب نہیں آئے ہم لوگ کیوں اتنے پریشاں ہیں کس بات پر آخر نالاں ہیں کیا ساری بہاریں روٹھ گئیں کیا اب کے گلاب نہیں ...

    مزید پڑھیے

    راستہ دیر تک سوچتا رہ گیا

    راستہ دیر تک سوچتا رہ گیا جانے والے کا کیوں نقش پا رہ گیا آج پھر دب گئیں درد کی سسکیاں آج پھر گونجتا قہقہہ رہ گیا اب ہوا سے شجر کر رہا ہے گلہ ایک گل شاخ پر کیوں بچا رہ گیا جھوٹ کہنے لگا سچ سے بچنے لگا حوصلے مٹ گئے تجربہ رہ گیا ہنستے گاتے ہوئے لفظ سب مٹ گئے آنسوؤں سے لکھا حاشیہ ...

    مزید پڑھیے

    رکنے کے لیے دست ستم گر بھی نہیں تھا

    رکنے کے لیے دست ستم گر بھی نہیں تھا افسوس کسی ہاتھ میں پتھر بھی نہیں تھا باہر جو نہیں تھا تو کوئی بات نہیں تھی احساس ندامت مگر اندر بھی نہیں تھا جنت نہ مجھے دی تو میں دوزخ بھی نہ لوں گا مومن جو نہیں تھا تو میں کافر بھی نہیں تھا لوٹا جو وطن کو تو وہ رستے ہی نہیں تھے جو گھر تھا ...

    مزید پڑھیے

    یہ وصال و ہجر کا مسئلہ تو مری سمجھ میں نہ آ سکا

    یہ وصال و ہجر کا مسئلہ تو مری سمجھ میں نہ آ سکا کبھی کوئی مجھ کو نہ پا سکا کبھی میں کسی کو نہ پا سکا کئی بستیوں کو الٹ چکا کوئی تاب اس کی نہ لا سکا مگر آندھیوں کا یہ سلسلہ ترا نقش پا نہ مٹا سکا مری داستاں بھی عجیب ہے وہ قدم قدم مرے ساتھ تھا جسے راز دل نہ بتا سکا جسے داغ دل نہ دکھا ...

    مزید پڑھیے

    ممکن ہی نہیں کہ کنارا بھی کرے گا

    ممکن ہی نہیں کہ کنارا بھی کرے گا عاشق ہے تو پھر عشق دوبارہ بھی کرے گا پردیس میں آیا ہوں تو کچھ میں بھی کروں گا کچھ کام مرے تخت کا تارا بھی کرے گا انداز یہی ہے یہی اطوار ہیں اس کے بیٹھے گا بہت دور اشارہ بھی کرے گا روئے گا کبھی خوب کبھی ہنسے گا کیا اور ترے تیر کا مارا بھی کرے گا جب ...

    مزید پڑھیے

    آنسو تو کوئی آنکھ میں لایا نہیں ہوں میں

    آنسو تو کوئی آنکھ میں لایا نہیں ہوں میں جیسا مگر لگا تمہیں ویسا نہیں ہوں میں اب مبتلائے عشق زیادہ نہیں ہوں میں کہتے ہو تم یہی تو پھر اچھا نہیں ہوں میں خوبی نہ ہو کوئی مگر اتنا تو ہے ضرور جھوٹی لگے جو بات وہ کہتا نہیں ہوں میں پانی پہ بنتے عکس کی مانند ہوں مگر آنکھوں میں کوئی بھر ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تو صحن انا سے نکلے کہیں پہ دشت ملال آیا

    کبھی تو صحن انا سے نکلے کہیں پہ دشت ملال آیا ہماری وحشت پہ کیسا کیسا عروج آیا زوال آیا عداوتیں تھیں محبتیں تھیں نہ جانے کتنی ہی حسرتیں تھیں مگر پھر ایسا ہوا کہ سب کچھ میں خود ہی دل سے نکال آیا کبھی عبادت کبھی عنایت کبھی دعائیں کبھی عطائیں کہیں پہ دست طلب بنے ہم کہیں پہ ہم تک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2