Hiamanshu Panday

ہمانشو پانڈے

ہمانشو پانڈے کی غزل

    دریچے ہی دریچے تھے کوئی بھی در نہیں آیا

    دریچے ہی دریچے تھے کوئی بھی در نہیں آیا صداؤں کی کمی تھی کیا جو تو باہر نہیں آیا اگر ہے دولتوں میں دم خریدو تم مرا سایہ میں وہ بیجو جو اکبر کے بلانے پر نہیں آیا بہت میٹھا سا لگتا ہے تری آنکھوں کا پانی کیوں تری آنکھوں کے حصے کیا کبھی ساگر نہیں آیا ہزاروں لوگ بس یہ جسم چھو کر لوٹ ...

    مزید پڑھیے

    زمانہ ایک وہ بھی تھا سہارے تھے تمہارے ہم

    زمانہ ایک وہ بھی تھا سہارے تھے تمہارے ہم کھڑے ہیں اب ذرا دیکھو دواروں کے سہارے ہم بتا کر ایک مصرع میں ندی سا حسن وہ تیرا ملے پھر دوسرے مصرعے اسی دریا کنارے ہم کسی سے جو نہیں ہارا وہ اپنوں سے تو ہارا ہے تمہارے سامنے جیسے محبت پھر سے ہارے ہم تمہی ہر روز مجھ کو خود سے تھوڑا دور ...

    مزید پڑھیے

    سماعت آپ کی آہٹ پہ آ کر ٹوٹ جاتی ہے

    سماعت آپ کی آہٹ پہ آ کر ٹوٹ جاتی ہے کہ یہ وہ ناؤ ہے جو تٹ پہ آ کر ٹوٹ جاتی ہے تجھے ہاتھوں سے چھونے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہوس میری تری چوکھٹ پہ آ کر ٹوٹ جاتی ہے نظر میری ترے ماتھے کی سلوٹ پہ ہی رہتی ہے خوشی میری اسی سلوٹ پہ آ کر ٹوٹ جاتی ہے

    مزید پڑھیے

    کہاں غائب ہوا وہ گھر پرندے سے ذرا پوچھو

    کہاں غائب ہوا وہ گھر پرندے سے ذرا پوچھو بھیانک آندھیوں کا ڈر پرندے سے ذرا پوچھو مشاہد کو لگا آسان ہے طوفان میں اڑنا زمیں سے عرش تک دوبھر پرندے سے ذرا پوچھو اٹھائے پنکھ تب آکاش بھی چھوٹا پڑا تھا پھر قفس میں ہیں سمائے پر پرندے سے ذرا پوچھو

    مزید پڑھیے