Hazin Ludhianvi

حزیں لدھیانوی

حزیں لدھیانوی کی غزل

    مرے کلام میں پیچیدہ استعارہ نہیں

    مرے کلام میں پیچیدہ استعارہ نہیں کہ حرف صدق چھپانا مجھے گوارا نہیں مرے لیے یہی موجیں ہیں دامن الیاس بھنور میں ہوں مرے دونوں طرف کنارہ نہیں دعائیں مانگتا ہوں صبح کے اجالوں کی اندھیری وصل کی شب بھی مجھے گوارا نہیں ترے مزاج کے ریشم میں کیسے آگ لگی مری غزل کا خنک لفظ تو شرارہ ...

    مزید پڑھیے

    اس کا نہیں ہے غم کوئی جاں سے اگر گزر گئے

    اس کا نہیں ہے غم کوئی جاں سے اگر گزر گئے دکھ کی اندھیری قبر پر ہم بھی چراغ دھر گئے شان و شکوہ کیا ہوئے قیصر و جم کدھر گئے تخت الٹ الٹ گئے تاج بکھر بکھر گئے فکر معاش نے سبھی جذبوں کو سرد کر دیا سڑکوں پہ دن گزر گیا ہو کے نڈھال گھر گئے تندیٔ سیل وقت میں یہ بھی ہے کوئی زندگی صبح ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    مرے ریاض کا آخر اثر دکھائی دیا

    مرے ریاض کا آخر اثر دکھائی دیا چھپا تھا دل میں جو نغمہ مجھے سنائی دیا جہاں شناس و خود آگاہ کر دیا مجھ کو مرے شعور نے وہ درد آشنائی دیا جو پا لیا تجھے میں خود کو ڈھونڈنے نکلا تمہارے قرب نے بھی زخم نارسائی دیا ابھی تو توڑ تھکے بازوؤں کی پتواریں وہ دور افق پہ کوئی بادباں دکھائی ...

    مزید پڑھیے

    پھول کا پیغام لے جائے کوئی مالی کے نام

    پھول کا پیغام لے جائے کوئی مالی کے نام اس سراپا فصل گل گلزار کے والی کا نام میں بہادر شہ‌ ظفرؔ اور درد کا رنگون ہے کیا لکھوں غالبؔ کے نام اور کیا لکھوں حالیؔ کے نام سبزۂ بیگانہ ہو یا لالہ و گل کی قبا وقف ہے میرا لہو گلشن کی ہریالی کے نام لکھ رہا ہوں اپنے ہاتھوں کی خراشوں کا ...

    مزید پڑھیے

    مواد کر کے فراہم چمکتی سڑکوں سے

    مواد کر کے فراہم چمکتی سڑکوں سے سجا رہا ہوں غزل کو نئے خیالوں سے چھپی ہے ان میں نہ جانے کہاں کی چیخ پکار بلند ہوتے ہیں نغمے جو روز محلوں سے نظر نہ آئی کبھی پھر وہ گاؤں کی گوری اگرچہ مل گئے دیہات آ کے شہروں سے گزار دیتے ہیں عمریں وہ گھپ اندھیروں میں لٹک رہے ہیں جو بجلی کے اونچے ...

    مزید پڑھیے

    اس طرح پیکر وفا ہو جائیں

    اس طرح پیکر وفا ہو جائیں ایک دوجے کا آسرا ہو جائیں آؤ مل بیٹھ کر ہنسیں بولیں نہیں معلوم کب جدا ہو جائیں دکھ کسی کو ہو ہم تڑپ اٹھیں اس قدر درد آشنا ہو جائیں خشک دھرتی چٹخ رہی ہو جب بھری برسات کی گھٹا ہو جائیں شہر جامد ہے لوگ بے آواز ایسے ماحول میں صدا ہو جائیں دشمنوں کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    قلب کو برف آشنا نہ کرو

    قلب کو برف آشنا نہ کرو گل کسی طور یہ دیا نہ کرو زندگی بھی ہے ایک مرگ دوام تم جو جینے کا حق ادا نہ کرو جس میں پھولوں پہ پاؤں دھرنا پڑے اختیار ایسا راستہ نہ کرو زہر پی جاؤ بانکپن کے ساتھ زہر چکھنے کا تجربہ نہ کرو گر سکھائے جو جنگ بازی کے ایسی دانش کو رہنما نہ کرو ظلم تو ظالموں کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2