دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی
دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی روبرو ان کے مگر آنکھ اٹھائی نہ گئی ہم رضا شیوہ ہیں تاویل ستم خود کر لیں کیا ہوا ان سے اگر بات بنائی نہ گئی یہ بھی آداب محبت نے گوارا نہ کیا ان کی تصویر بھی آنکھوں سے لگائی نہ گئی آہ وہ آنکھ جو ہر سمت رہی صاعقہ پاش وہ جو مجھ سے کسی عنوان ملائی ...