Hasrat Mohani

حسرتؔ موہانی

مجاہد آزادی اور آئین ساز اسمبلی کے رکن ، ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دیا ، شری کرشن کے معتقد ، اپنی غزل ’ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘ کے لئے مشہور

Freedom fighter, member of constituent assembly which drafted Indian Constitution. He gave the slogan "Inquilab Zindabad" during freedom movement. He was a devotee of Shri Krishna. He wrote the famous ghazal "chupke chupke raat din".

حسرتؔ موہانی کی غزل

    درد دل کی انہیں خبر نہ ہوئی

    درد دل کی انہیں خبر نہ ہوئی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی کوششیں ہم نے کیں ہزار مگر عشق میں ایک معتبر نہ ہوئی کر چکے ہم کو بے گناہ شہید آپ کی آنکھ پھر بھی تر نہ ہوئی نارسا آہ عاشقاں وہ کہاں دور ان سے جو بے اثر نہ ہوئی آئی بجھنے کو اپنی شمع حیات شب غم کی مگر سحر نہ ہوئی شب تھے ہم گرم ...

    مزید پڑھیے

    ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

    ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی دشوار ہے رندوں پر انکار کرم یکسر اے ساقئ جاں پرور کچھ لطف و عنایت بھی دل بسکہ ہے دیوانہ اس حسن گلابی کا رنگیں ہے اسی رو سے شاید غم فرقت ...

    مزید پڑھیے

    آسان حقیقی ہے نہ کچھ سہل مجازی

    آسان حقیقی ہے نہ کچھ سہل مجازی معلوم ہوئی راہ محبت کی درازی کچھ لطف و نظر لازم و ملزوم نہیں ہیں اک یہ بھی تمنا کی نہ ہو شعبدہ بازی دل خوب سمجھتا ہے ترے حرف کرم کو ہر چند وہ اردو ہے نہ ترکی ہے نہ تازی قائم ہے نہ وہ حسن رخ یار کا عالم باقی ہے نہ وہ شوق کی ہنگامہ نوازی اے عشق تری ...

    مزید پڑھیے

    بت بے‌ درد کا غم مونس ہجراں نکلا

    بت بے‌ درد کا غم مونس ہجراں نکلا درد جانا تھا جسے ہم نے وہ درماں نکلا آنکھ جب بند ہوئی تب کھلیں آنکھیں اپنی بزم یاراں جسے سمجھے تھے وہ زنداں نکلا حسرت و یاس کا انبوہ فغاں کی کثرت میں تری بزم سے کیا با سر و ساماں نکلا خون ہو کر تو یہ دل آنکھ سے برسوں ٹپکا نہ کوئی پر دل ناکام کا ...

    مزید پڑھیے

    خوب رویوں سے یاریاں نہ گئیں

    خوب رویوں سے یاریاں نہ گئیں دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں عقل صبرآشنا سے کچھ نہ ہوا شوق کی بے قراریاں نہ گئیں دن کی صحرا نوردیاں نہ چھٹیں شب کی اختر شماریاں نہ گئیں ہوش یاں سد راہ علم رہا عقل کی ہرزہکاریاں نہ گئیں تھے جو ہمرنگ ناز ان کے ستم دل کی امیدواریاں نہ گئیں حسن جب تک رہا ...

    مزید پڑھیے

    چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی

    چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی انتہا تھی یہ دل ربائی کی مائل غمزہ ہے وہ چشم سیاہ اب نہیں خیر پارسائی کی ہم سے کیونکر وہ آستانہ چھٹے مدتوں جس پہ جبہ سائی کی دل نے برسوں بہ جستجوئے کمال کوچۂ عشق میں گدائی کی دام سے ان کے چھوٹنا تو کہاں یاں ہوس بھی نہیں رہائی کی کیا کیا یہ کہ اہل ...

    مزید پڑھیے

    عقل سے حاصل ہوئی کیا کیا پشیمانی مجھے

    عقل سے حاصل ہوئی کیا کیا پشیمانی مجھے عشق جب دینے لگا تعلیم نادانی مجھے رنج دے گی باغ رضواں کی تن آسانی مجھے یاد آئے گا ترا لطف ستم رانی مجھے میری جانب ہے مخاطب خاص کر وہ چشم ناز اب تو کرنی ہی پڑے گی دل کی قربانی مجھے دیکھ لے اب کہیں آ کر جو وہ غفلت شعار کس قدر ہو جائے مر جانے ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے

    نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے دلوں کو فکر دوعالم سے کر دیا آزاد ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی مجھے وہ شامل ارباب امتیاز کرے غم جہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    حسن بے پروا کو خودبین و خود آرا کر دیا

    حسن بے پروا کو خودبین و خود آرا کر دیا کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بیتابیاں ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا پڑھ کے تیرا خط مرے دل کی عجب حالت ہوئی اضطراب شوق نے اک حشر برپا کر دیا ہم رہے یاں تک تری خدمت میں سرگرم نیاز تجھ کو آخر ...

    مزید پڑھیے

    اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم

    اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم گھبرا گئے ہیں بے دلئ ہم رہاں سے ہم کچھ ایسی دور بھی تو نہیں منزل مراد لیکن یہ جب کہ چھوٹ چلیں کارواں سے ہم اے یاد یار دیکھ کہ باوصف رنج ہجر مسرور ہیں تری خلش ناتواں سے ہم معلوم سب ہے پوچھتے ہو پھر بھی مدعا اب تم سے دل کی بات کہیں کیا زباں سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5