حسن عباس رضا کی نظم

    سفر دیوار گریہ کا

    تمہیں اس شہر سے رخصت ہوئے کتنا زمانہ ہو چکا پھر بھی ابھی تک میرے کمرے میں تمہارے جسم کی خوشبو کا ڈیرا ہے بظاہر تو تمہارے بعد ابھی تک میں بہت ہی مطمئن اور شانت لگتا ہوں مگر جب رات کے پچھلے پہر کمرے میں آتا ہوں تو جانے کیوں اچانک میری آنکھوں میں نمی سی تیرنے لگتی ہے پلکیں بھیگ جاتی ...

    مزید پڑھیے

    شاعری پورا مرد اور پوری عورت مانگتی ہے

    تم جو لفظوں کے گورکھ دھندے میں الجھے بے رس شاعری کرتے ہو لغت سے لفظ اٹھاتے ہو اور دائیں بائیں ان کو چبا کر شعر اگلتے رہتے تم کو کیا معلوم کہ کیا ہے عشق اور اس کی حقیقت کیا ہے پیار ہے کیا اور چاہت کیا ہے تم نے کسی کے ہجر میں کب راتیں کاٹی ہیں...؟ کب تم وصل کے نشے سے سرشار ہوئے ہو تم کو ...

    مزید پڑھیے

    تسلسل

    ایک ہی بستر پر لیٹے ہوئے کبھی کبھار دو جسموں کے درمیان چند شکنوں کا فاصلہ صدیوں پر پھیل جاتا ہے اس لمحے کے پیکار میں باہم پیوست دو جسموں سے پیدا ہونے والا تیسرا بدن ساری عمر فراق کی گھڑیاں گنتے گنتے آخر اسی زنجیرے میں ایک نئی کڑی کا اضافہ بن جاتا ہے اور پھر وہی عمل پھر وہی ...

    مزید پڑھیے

    تیسری آنکھ

    تو پھر یوں ہوا ہم شکستہ دلوں نے سپر ڈال دی جتنے ناوک بدست اپنے احباب کوہ وفا پر کھڑے تھے ہمیں ان سبھی کی جگر داریوں بے غرض جرأتوں پر مکمل یقیں تھا مگر جاں نثاری کے اس معرکے میں صف ہم رہاں کو پلٹ کر جو دیکھا تو کوئی نہیں تھا سبھی نرغۂ دشمناں میں کھڑے تھے ہجوم کشیدہ سراں پا بہ زنجیر ...

    مزید پڑھیے

    ادھورے موسموں کا ناتمام قصہ

    یہ کون جانے کہ کل کا سورج نحیف جسموں سلگتی روحوں پہ کیسے کیسے عذاب لائے گئی رتوں سے جواب مانگے نظر نظر میں سراب لائے یہ کون جانے! یہ کون مانے کہ لوح احساس پر گئے موسموں کے جتنے بھی نقش کندہ ہیں سب کے سب آنے والی ساعت کو آئینہ ہیں جو آنکھ پڑھ لے تو مرثیہ ہیں یہ کون دیکھے ،یہ کون ...

    مزید پڑھیے

    تاوان

    ہم اپنی یرغمالی خواہشوں کی بازیابی کے لیے کب تک نہ جانے اور کب تک جرعہ جرعہ خرچ ہوتی عمر کا تاوان ادا کرتے رہیں گے جانے کب تک؟

    مزید پڑھیے

    آثار قدیمہ سے نکلا ایک نوشتہ

    ہماری آنکھ میں نوکیلے کانٹے اور بدن میں زہر کے نیزے ترازو ہو چکے تھے جب سیہ شب نے گلابی صبح کے غرقاب ہونے کی خبر پر ہم سے فوری تبصرہ مانگا ہمارے ہونٹ اتنے خشک، اور اتنے دریدہ تھے کہ ہم اک لفظ بھی کہتے تو ریزہ ریزہ ہو جاتے قلم ہاتھوں میں کیا لیتے کہ اپنے ہاتھ پہلے ہی قلم تھے (کیا ...

    مزید پڑھیے

    چھاجوں برستی بارش کے بعد

    رفاقت کے نشے میں جھومتے دو سبز پتوں نے بہت آہستہ سے تالی بجائی اور کہا دیکھو'' حسن عباس! اتنی خوبصورت رت میں کوئی اس طرح تنہا بھی ہوتا ہے جو تم اس طور تنہا ہو''!؟ یہ کہہ کر دونوں اک دوجے سے یوں لپٹے کہ جیسے ایک دن تو مجھ سے لپٹی تھی اسی لمحے مرے ہونٹوں پہ تیرا شہد آگیں لمس جاگ ...

    مزید پڑھیے