Hamidi Kashmiri

حامدی کاشمیری

معتبر نقاد اور دانشور

حامدی کاشمیری کی غزل

    خود خموشی کے حصاروں میں رہے

    خود خموشی کے حصاروں میں رہے رات بھر چرچے ستاروں میں رہے تھی زمین گل نظر کے سامنے جادہ پیما ریگ زاروں میں رہے ہو گئے ہیں کتنے منزل آشنا کتنے رہ رو رہ گزاروں میں رہے ہو گئیں غرقاب کتنی بستیاں کتنے طوفاں جوئباروں میں رہے ظلمت شب پاس آ سکتی نہیں مدتوں ہم ماہ پاروں میں رہے ہے ...

    مزید پڑھیے

    یہ اب کے کیسی مشکل ہو گئی ہے

    یہ اب کے کیسی مشکل ہو گئی ہے بھٹکتی موج ساحل ہو گئی ہے میسر قربتیں اب بھی ہیں لیکن کوئی دیوار حائل ہو گئی ہے ہے حافظ اب خدا ہی وادیوں کا بلائے کوہ نازل ہو گئی ہے کہیں کوئی ستارہ بجھ گیا ہے شکستہ رنگ محفل ہو گئی ہے اسی سے کر لو اندازہ سفر کا قریب آ دور منزل ہو گئی ہے

    مزید پڑھیے

    یہ چلتی پھرتی سی لاشیں شمار کرنے کو

    یہ چلتی پھرتی سی لاشیں شمار کرنے کو بہت ہے کام سر رہ گزار کرنے کو گزر رہے ہیں بہ عجلت بہار کے ایام پڑا ہے رخت بدن تار تار کرنے کو گلے کی سمت مرے اپنے ہاتھ بڑھتے ہیں رہا ہی کیا ہے بھلا اعتبار کرنے کو بدن کو چاٹ لیا ہے سیاہ کائی نے ابھی تو کتنے سمندر ہیں پار کرنے کو ابھی سے چاند ...

    مزید پڑھیے

    بس اسی کا سفر شب میں طلب گار ہے کیا

    بس اسی کا سفر شب میں طلب گار ہے کیا تو ہی اے ماہ مرا ہم دم و غم خوار ہے کیا تیشہ در دست امنڈ آئی ہے آبادی تمام سب یہی کہتے ہیں دیکھیں پس دیوار ہے کیا ہاں اسی لمحے میں ہوتا ہے ستاروں کا نزول شہر خوابیدہ میں کوئی دل بیدار ہے کیا جسم تو جسم ہے مجروح ہوئی ہے جاں بھی اپنوں کے ہوتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    سحر نا آشنا کوئی نہیں ہے

    سحر نا آشنا کوئی نہیں ہے مگر اب جاگتا کوئی نہیں ہے پیامی بن کے آتے تھے پرندے مگر اب رابطہ کوئی نہیں ہے شکستہ پا نہیں ہیں ہم درختو کریں کیا راستہ کوئی نہیں ہے کوئی لوٹا نہیں گھر سے نکل کر مگر یہ سوچتا کوئی نہیں ہے بہا لو تم ہی اپنے ساتھ موجو ہمارا آسرا کوئی نہیں ہے ہم اس کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2