Hamid Jeelani

حامد جیلانی

حامد جیلانی کی نظم

    کوئی دود سے بن جاتا ہے وجود

    آدھی رات کو فون بجا اور ابھری اک انجانی مغلوب صدا اپنی چیخ کی دہشت سے ابھی ابھی وہ جاگی ہے معلوم ہوا بیضوی چہرہ بے صورت سر پر مڑے تڑے دو سینگ اور سینے کے وسط میں اک پنج کونی آنکھ آنکھ کی پتلی میں میرا ہی عکس مقید آتش فشاں پہاڑ کی گہرائی سے ابھر کر خونی پنجے بھینچ بھینچ کر کھردرے ...

    مزید پڑھیے

    بشارت کے کاسوں میں

    ابھی تک اسے ڈھونڈنے کے لئے کوئی نکلا نہیں وہ جسے بھیڑ میں کھو دیا تھا کہیں گنگ الفاظ کی لالٹینوں کو روشن کئے اپنے اپنے دریچوں میں لٹکا دیا اور بجلی کڑکتے دھواں دھار موسم میں بھی اس طرح منتظر ہیں کہ کچھ دیر تک سرمدی سنکھ بجتے ہی چاروں طرف اپنے ہونے کا اظہار کرتا ہوا آپ ہی وہ کہیں ...

    مزید پڑھیے