کوئی دود سے بن جاتا ہے وجود
آدھی رات کو فون بجا اور ابھری اک انجانی مغلوب صدا اپنی چیخ کی دہشت سے ابھی ابھی وہ جاگی ہے معلوم ہوا بیضوی چہرہ بے صورت سر پر مڑے تڑے دو سینگ اور سینے کے وسط میں اک پنج کونی آنکھ آنکھ کی پتلی میں میرا ہی عکس مقید آتش فشاں پہاڑ کی گہرائی سے ابھر کر خونی پنجے بھینچ بھینچ کر کھردرے ...