Hamid Jeelani

حامد جیلانی

حامد جیلانی کی غزل

    دن کو نہ گھر سے جائیے لگتا ہے ڈر مجھے

    دن کو نہ گھر سے جائیے لگتا ہے ڈر مجھے اس پارۂ سحاب کو سورج نہ دیکھ لے اس ہاتھ کی مہک سے مرے ہاتھ شل ہوئے اس قرب سے ملے مجھے صدیوں کے فاصلے میری لویں بجھا نہ سکیں تیز آندھیاں جھونکوں کی نرم دھار سے کہسار کٹ گئے اپنی صدا کو روک لو کیا اس سے فائدہ ڈھلوان پر بھلا کبھی پتھر ٹھہر ...

    مزید پڑھیے

    اپنے حصار جسم سے باہر بھی دیکھتے

    اپنے حصار جسم سے باہر بھی دیکھتے ہم آئنے کے سامنے ہو کر بھی دیکھتے عکس فلک سے ٹوٹتا کیسے جمود آپ پتھر گرا کے جھیل کے اندر بھی دیکھتے کرتے پلٹ کے اپنے ہی سائے سے گفتگو صحرا میں زرد‌‌ رنگ سمندر بھی دیکھتے دنیا کا خوف تھا تو لگاتے نہ آگ ہی یا موم کا پگھلتا ہوا گھر بھی ...

    مزید پڑھیے

    بھول جا مت رہ کسی کی یاد میں کھویا ہوا

    بھول جا مت رہ کسی کی یاد میں کھویا ہوا اس اندھیرے غار میں کچھ بھی نہیں رکھا ہوا روشنی مل جائے تو مطلب عبارت کا سمجھ ہے کتاب خاک میں کالک سے کچھ لکھا ہوا چھو کے جب دیکھا مجھے بے حد پشیمانی ہوئی وہم کا پیکر تھا میرے سامنے بیٹھا ہوا اس مکاں میں دیر سے شاید کوئی رہتا نہیں در کھلے ...

    مزید پڑھیے

    قبائے گرد ہوں آتا ہے یہ خیال مجھے

    قبائے گرد ہوں آتا ہے یہ خیال مجھے چلے ہوا تو کہوں کس سے میں سنبھال مجھے سکوت مرگ کے گنبد میں اک صدا بن کے کبھی حصار‌‌ غم زیست سے نکال مجھے کوئی بھی راہ کا پتھر نظر نہیں آتا میں دیکھتا ہوں اسے حیرت سوال مجھے مرے وجود میں اک کرب بن کے بکھرا ہے یہ میرا دل کہ ہوا باعث وبال ...

    مزید پڑھیے

    دیکھنے والے کو باہر سے گماں ہوتا نہیں

    دیکھنے والے کو باہر سے گماں ہوتا نہیں آگ کچھ ایسے لگائی ہے دھواں ہوتا نہیں اپنے ہونے کی خبر دیتا ہے خوشبو سے مجھے پھیلتا ہے چار سو اور درمیاں ہوتا نہیں روشنی کر دے تماشا گاہ سے دہشت مٹے کہر اتنا ہے کہ پس منظر عیاں ہوتا نہیں سوچنا چاہو تو زیر پا ملے ہفت آسماں دیکھنا چاہو تو ...

    مزید پڑھیے

    جب طلسم اثر سے نکلا تھا

    جب طلسم اثر سے نکلا تھا زہر‌ شیریں ثمر سے نکلا تھا اڑ گئے آندھیوں میں جب پتے خون کتنا شجر سے نکلا تھا مجھ سے پوچھا اسی نے میرا پتہ ڈھونڈنے جس کو گھر سے نکلا تھا دھوپ چمکی تو میہماں کی طرح سایہ دیوار و در سے نکلا تھا لوگ سوئے پڑے تھے اور خورشید حجلۂ ابر تر سے نکلا تھا

    مزید پڑھیے

    خاک پر پھینکا ہواؤں نے اٹھا لے مجھ کو

    خاک پر پھینکا ہواؤں نے اٹھا لے مجھ کو پھول ہوں کوٹ کے کالر پہ سجا لے مجھ کو کب سے میں ریت کے مرقد میں پڑا ہوں زندہ سطح پر موج کسی دن تو اچھالے مجھ کو سرخیٔ خوں میں چمک ہے کہ مری آنکھوں میں روز وہ رنگ دکھاتا ہے نرالے مجھ کو ساتھ ہی مجھ کو گرا لے نہ لچکتا ہوا پیڑ اڑتا بادل نہ کہیں ...

    مزید پڑھیے