Hamid Jeelani

حامد جیلانی

حامد جیلانی کے تمام مواد

7 غزل (Ghazal)

    دن کو نہ گھر سے جائیے لگتا ہے ڈر مجھے

    دن کو نہ گھر سے جائیے لگتا ہے ڈر مجھے اس پارۂ سحاب کو سورج نہ دیکھ لے اس ہاتھ کی مہک سے مرے ہاتھ شل ہوئے اس قرب سے ملے مجھے صدیوں کے فاصلے میری لویں بجھا نہ سکیں تیز آندھیاں جھونکوں کی نرم دھار سے کہسار کٹ گئے اپنی صدا کو روک لو کیا اس سے فائدہ ڈھلوان پر بھلا کبھی پتھر ٹھہر ...

    مزید پڑھیے

    اپنے حصار جسم سے باہر بھی دیکھتے

    اپنے حصار جسم سے باہر بھی دیکھتے ہم آئنے کے سامنے ہو کر بھی دیکھتے عکس فلک سے ٹوٹتا کیسے جمود آپ پتھر گرا کے جھیل کے اندر بھی دیکھتے کرتے پلٹ کے اپنے ہی سائے سے گفتگو صحرا میں زرد‌‌ رنگ سمندر بھی دیکھتے دنیا کا خوف تھا تو لگاتے نہ آگ ہی یا موم کا پگھلتا ہوا گھر بھی ...

    مزید پڑھیے

    بھول جا مت رہ کسی کی یاد میں کھویا ہوا

    بھول جا مت رہ کسی کی یاد میں کھویا ہوا اس اندھیرے غار میں کچھ بھی نہیں رکھا ہوا روشنی مل جائے تو مطلب عبارت کا سمجھ ہے کتاب خاک میں کالک سے کچھ لکھا ہوا چھو کے جب دیکھا مجھے بے حد پشیمانی ہوئی وہم کا پیکر تھا میرے سامنے بیٹھا ہوا اس مکاں میں دیر سے شاید کوئی رہتا نہیں در کھلے ...

    مزید پڑھیے

    قبائے گرد ہوں آتا ہے یہ خیال مجھے

    قبائے گرد ہوں آتا ہے یہ خیال مجھے چلے ہوا تو کہوں کس سے میں سنبھال مجھے سکوت مرگ کے گنبد میں اک صدا بن کے کبھی حصار‌‌ غم زیست سے نکال مجھے کوئی بھی راہ کا پتھر نظر نہیں آتا میں دیکھتا ہوں اسے حیرت سوال مجھے مرے وجود میں اک کرب بن کے بکھرا ہے یہ میرا دل کہ ہوا باعث وبال ...

    مزید پڑھیے

    دیکھنے والے کو باہر سے گماں ہوتا نہیں

    دیکھنے والے کو باہر سے گماں ہوتا نہیں آگ کچھ ایسے لگائی ہے دھواں ہوتا نہیں اپنے ہونے کی خبر دیتا ہے خوشبو سے مجھے پھیلتا ہے چار سو اور درمیاں ہوتا نہیں روشنی کر دے تماشا گاہ سے دہشت مٹے کہر اتنا ہے کہ پس منظر عیاں ہوتا نہیں سوچنا چاہو تو زیر پا ملے ہفت آسماں دیکھنا چاہو تو ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    کوئی دود سے بن جاتا ہے وجود

    آدھی رات کو فون بجا اور ابھری اک انجانی مغلوب صدا اپنی چیخ کی دہشت سے ابھی ابھی وہ جاگی ہے معلوم ہوا بیضوی چہرہ بے صورت سر پر مڑے تڑے دو سینگ اور سینے کے وسط میں اک پنج کونی آنکھ آنکھ کی پتلی میں میرا ہی عکس مقید آتش فشاں پہاڑ کی گہرائی سے ابھر کر خونی پنجے بھینچ بھینچ کر کھردرے ...

    مزید پڑھیے

    بشارت کے کاسوں میں

    ابھی تک اسے ڈھونڈنے کے لئے کوئی نکلا نہیں وہ جسے بھیڑ میں کھو دیا تھا کہیں گنگ الفاظ کی لالٹینوں کو روشن کئے اپنے اپنے دریچوں میں لٹکا دیا اور بجلی کڑکتے دھواں دھار موسم میں بھی اس طرح منتظر ہیں کہ کچھ دیر تک سرمدی سنکھ بجتے ہی چاروں طرف اپنے ہونے کا اظہار کرتا ہوا آپ ہی وہ کہیں ...

    مزید پڑھیے