Haidar Ali Aatish

حیدر علی آتش

مرزا غالب کے ہم عصر، انیسویں صدی کی اردو غزل کا روشن ستارہ

Contemporary of Mirza Ghalib, Aatish was one of the shining stars of 19th century Urdu Ghazal.

حیدر علی آتش کی غزل

    تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا

    تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا ذرا سنبل کو لہرایا تو ہوتا رخ بے داغ دکھلایا تو ہوتا گل لالہ کو شرمایا تو ہوتا چلے گا کبک کیا رفتار تیری یہ انداز قدم پایا تو ہوتا کہے جاتے وہ سنتے یا نہ سنتے زباں تک حال دل آیا تو ہوتا سمجھتا یا نہ اے آتشؔ سمجھتا دل مضطر کو سمجھایا تو ہوتا

    مزید پڑھیے

    پیری سے مرا نوع دگر حال ہوا ہے

    پیری سے مرا نوع دگر حال ہوا ہے وہ قد جو الف سا تھا سو اب دال ہوا ہے مقبول مرے قول سے قوال ہوا ہے صوفی کو غزل سن کے مری حال ہوا ہے ان ہاتھوں کی دولت سے کڑا مال ہوا ہے ان پاؤں سے آوازۂ خلخال ہوا ہے المنۃ و للہ بہ صد منت ادھر سے انکار تھا جس شے کا اب اقبال ہوا ہے جب قتل کیا ہے کسی ...

    مزید پڑھیے

    نا فہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیے

    نا فہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیے ورنہ کوئی نقاب نہیں یار کے لیے نور تجلی ہے ترے رخسار کے لیے آنکھیں مری کلیم ہیں دیدار کے لیے فدیے بہت اس ابروئے خم دار کے لیے چو رنگ کی کمی نہیں تلوار کے لیے قول اپنا ہے یہ سبحہ و زنار کے لیے دو پھندے ہیں یہ کافر و دیں دار کے لیے لطف چمن ہے بلبل ...

    مزید پڑھیے

    ہوائے دور مے خوش گوار راہ میں ہے

    ہوائے دور مے خوش گوار راہ میں ہے خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے بلند آج نہایت غبار راہ میں ہے عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے نہ بدرقہ ہے نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے فقط عنایت پروردگار راہ میں ہے سفر ہے شرط ...

    مزید پڑھیے

    یا علی کہہ کر بت پندار توڑا چاہئے

    یا علی کہہ کر بت پندار توڑا چاہئے نفس امارہ کی گردن کو مروڑا چاہئے تنگ آ کر جسم کو اے روح چھوڑا چاہئے طفل طبعوں کے لیے مٹی کا گھوڑا چاہئے زلف کے سودے میں اپنے سر کو پھوڑا چاہئے جب بلا کا سامنا ہو منہ نہ موڑا چاہئے گھورتی ہے تم کو نرگس آنکھ پھوڑا چاہئے گل بہت ہنستے ہیں کان ان کے ...

    مزید پڑھیے

    دل بہت تنگ رہا کرتا ہے

    دل بہت تنگ رہا کرتا ہے رنگ بے رنگ رہا کرتا ہے حسن میں تیرے کوئی عیب نہیں قبح میں دنگ رہا کرتا ہے صلح کی دل سے ہیں یاں مصلحتیں واں سر جنگ رہا کرتا ہے محتسب کو ترے مستانوں سے خوف سرچنگ رہا کرتا ہے دل مرا پی کے محبت کی شراب نشہ میں بھنگ رہا کرتا ہے فارسی عار ہے مجھ مجنوں کو ننگ سے ...

    مزید پڑھیے

    وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم

    وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم نکلے تو پھر کے آئے نہ اپنے مکاں میں ہم ساکن ہیں جوش اشک سے آب رواں میں ہم رہتے ہیں مثل مردم آبی جہاں میں ہم شیدائے روئے گل نہ تو شیدائے قد سرو صیاد کے شکار ہیں اس بوستاں میں ہم نکلی لبوں سے آہ کہ گردوں نشانہ تھا گویا کہ تیر جوڑے ہوئے تھے ...

    مزید پڑھیے

    پیمبر میں نہیں عاشق ہوں جانی

    پیمبر میں نہیں عاشق ہوں جانی رہے موسی ہی سے یہ لن ترانی سلیماں ہم ہیں اے محبوب جانی سمجھتے ہیں تجھے بلقیس ثانی کھلا سودے میں ان زلفوں کے مر کر پریشاں خواب تھی یہ زندگانی یہ کیوں آتا ہے ان سے قد کشی کو گڑی جاتی ہے سرو بوستانی وہی دے گا کباب نرگسی بھی جو دیتا ہے شراب ...

    مزید پڑھیے

    چمن میں رہنے دے کون آشیاں نہیں معلوم

    چمن میں رہنے دے کون آشیاں نہیں معلوم نہال کس کو کرے باغباں نہیں معلوم مرے صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلوم خدا کا نام سنا ہے نشاں نہیں معلوم اخیر ہو گئے غفلت میں دن جوانی کے بہار عمر ہوئی کب خزاں نہیں معلوم یہ اشتیاق شہادت میں محو تھا دم قتل لگے ہیں زخم بدن پر کہاں نہیں معلوم سنا ...

    مزید پڑھیے

    آئنہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا

    آئنہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا چہرۂ شاہد مقصود عیاں ہے کہ جو تھا عشق گل میں وہی بلبل کا فغاں ہے کہ جو تھا پرتو مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا عالم حسن خدا داد بتاں ہے کہ جو تھا ناز و انداز بلائے دل و جاں ہے کہ جو تھا راہ میں تیری شب و روز بسر کرتا ہوں وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5