Haidar Ali Aatish

حیدر علی آتش

مرزا غالب کے ہم عصر، انیسویں صدی کی اردو غزل کا روشن ستارہ

Contemporary of Mirza Ghalib, Aatish was one of the shining stars of 19th century Urdu Ghazal.

حیدر علی آتش کی غزل

    اے جنوں ہوتے ہیں صحرا پر اتارے شہر سے

    اے جنوں ہوتے ہیں صحرا پر اتارے شہر سے فصل گل آئی کہ دیوانے سدھارے شہر سے خوب روئے حال پر اپنے وطن کا سن کے حال کوئی غربت میں جو آ نکلا ہمارے شہر سے جان دوں گا میں اسیر اے دوستو چپکے رہو ذکر کیا اس کا کہ دیوانہ سدھارے شہر سے موسم گل میں رہا زنداں میں اور آئی نہ موت سامنے ہوتی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    آشنا گوش سے اس گل کے سخن ہے کس کا

    آشنا گوش سے اس گل کے سخن ہے کس کا کچھ زباں سے کہے کوئی یہ دہن ہے کس کا پیشتر حشر سے ہوتی ہے قیامت برپا جو چلن چلتے ہیں خوش قد یہ چلن ہے کس کا دست قدرت نے بنایا ہے تجھے اے محبوب ایسا ڈھالا ہوا سانچے میں بدن ہے کس کا کس طرح تم سے نہ مانگیں تمہیں انصاف کرو بوسہ لینے کا سزا وار دہن ہے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے

    یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے زمیں یاں کی چہارم آسماں ہے خدا پنہاں ہے عالم آشکارا نہاں ہے گنج ویرانہ عیاں ہے دل روشن ہے روشن گر کی منزل یہ آئینہ سکندر کا مکاں ہے تکلف سے بری ہے حسن ذاتی قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے پسیجے گا کبھی تو دل کسی کا ہمیشہ اپنی آہوں کا دھواں ہے برنگ بو ...

    مزید پڑھیے

    جوہر نہیں ہمارے ہیں صیاد پر کھلے

    جوہر نہیں ہمارے ہیں صیاد پر کھلے لے کر قفس کو اڑ گئے رکھا جو پر کھلے شیشے شراب کے رہیں آٹھوں پہر کھلے ایسا گھرے کہ پھر نہ کبھی ابر تر کھلے کچھ تو ہمیں حقیقت شمس و قمر کھلے کس کج کلہ کے عشق میں پھرتے ہیں سر کھلے انصاف کو ہیں دیدۂ اہل نظر کھلے پردہ اٹھا کہ پردۂ شمس و قمر ...

    مزید پڑھیے

    اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے

    اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے تیغ بے آب ہے نے بازوئے قاتل کمزور کچھ گراں جانی ہے کچھ موت نے فرصت دی ہے اس قدر کس کے لیے یہ جنگ و جدل اے گردوں نہ نشاں مجھ کو دیا ہے نہ تو نوبت دی ہے سانپ کے کاٹے کی لہریں ہیں شب و روز آتیں کاکل یار کے سودے نے ...

    مزید پڑھیے

    چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا

    چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا یقین ہو گیا شبنم کو آفتاب آیا ان انکھڑیوں میں اگر نشۂ شراب آیا سلام جھک کے کروں گا جو پھر حجاب آیا کسی کے محرم آب رواں کی یاد آئی حباب کے جو برابر کبھی حباب آیا شب فراق میں مجھ کو سلانے آیا تھا جگایا میں نے جو افسانہ گو کو خواب آیا عدم میں ...

    مزید پڑھیے

    کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے

    کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے سانپ کو مار کے گنجینۂ زر لیتا ہے نا گوارا کو جو کرتا ہے گوارا انساں زہر پی کر مزۂ شیر و شکر لیتا ہے ہالے میں ماہ کا ہوتا ہے چکوروں کو یقیں کبھی انگڑائی جو وہ رشک قمر لیتا ہے وہ زبوں بخت شجر ہوں میں کہ دہقاں میرا پیچھے بوتا ہے مجھے پہلے تبر لیتا ...

    مزید پڑھیے

    بلائے جاں مجھے ہر ایک خوش جمال ہوا

    بلائے جاں مجھے ہر ایک خوش جمال ہوا چھری جو تیز ہوئی پہلے میں حلال ہوا گرو ہوا تو اسے چھوٹنا محال ہوا دل غریب مرا مفلسوں کا مال ہوا کمی نہیں تری درگاہ میں کسی شے کی وہی ملا ہے جو محتاج کا سوال ہوا دکھا کے چہرۂ روشن وہ کہتے ہیں سر شام وہ آفتاب نہیں ہے جسے زوال ہوا دکھا نہ دل کو ...

    مزید پڑھیے

    کیا کیا نہ رنگ تیرے طلب گار لا چکے

    کیا کیا نہ رنگ تیرے طلب گار لا چکے مستوں کو جوش صوفیوں کو حال آ چکے ہستی کو مثل نقش کف پا مٹا چکے عاشق نقاب شاہد مقصود اٹھا چکے کعبے سے دیر دیر سے کعبے کو جا چکے کیا کیا نہ اس دوراہے میں ہم پھیر کھا چکے گستاخ ہاتھ طوق کمر یار کے ہوئے حد ادب سے پاؤں کو آگے بڑھا چکے کنعاں سے شہر ...

    مزید پڑھیے

    غیرت مہر رشک ماہ ہو تم

    غیرت مہر رشک ماہ ہو تم خوب صورت ہو بادشاہ ہو تم جس نے دیکھا تمہیں وہ مر ہی گیا حسن سے تیغ بے پناہ ہو تم کیوں کر آنکھیں نہ ہم کو دکھلاؤ کیسے خوش چشم خوش نگاہ ہو تم حسن میں آپ کے ہے شان خدا عشق بازوں کے سجدہ گاہ ہو تم ہر لباس آپ کو ہے زیبندہ جامہ زیبوں کے بادشاہ ہو تم فوق ہے سارے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5