Habeeb Moosavi

حبیب موسوی

حبیب موسوی کی غزل

    کوئی بات ایسی آج اے میری گل رخسار بن جائے

    کوئی بات ایسی آج اے میری گل رخسار بن جائے کہ بلبل باتوں باتوں میں دم گفتار بن جائے عیاں ہو جذب شوق ایسا حسیں آئیں زیارت کو مری تربت کا میلہ مصر کا بازار بن جائے مرے ہنسنے پہ وہ کہتے ہیں ایسا بھی نہ ہو بے خود کہ کوئی آدمی سے قہقہہ دیوار بن جائے تعجب کچھ نہیں ہے گر وفور سوز فرقت ...

    مزید پڑھیے

    بڑھا دی اک نظر میں تو نے کیا توقیر پتھر کی

    بڑھا دی اک نظر میں تو نے کیا توقیر پتھر کی بنا کحل البصر اللہ رے تقدیر پتھر کی اسیر زلف کیوں کر چھٹ سکیں گے قید وحشت سے کہ ہے ہر جادۂ دشت جنوں زنجیر پتھر کی یہ جلوہ ہے کنشت و دیر میں صانع کی قدرت کا کہ دعوی خدائی کرتی ہے تصویر پتھر کی تلاش رزق میں ہو آسیا کی طرح سرگرداں اگر دانا ...

    مزید پڑھیے

    بنا کے آئینۂ تصور جہاں دل داغدار دیکھا

    بنا کے آئینۂ تصور جہاں دل داغدار دیکھا فراق میں لطف وصل پایا خزاں میں رنگ بہار دیکھا تمام کاموں کا راستے پر ہمیشہ دار و مدار دیکھا فساد طینت میں جن کی پایا ہر ایک صحبت میں خار دیکھا سنبھالا جس دن سے ہوش ہم نے وطن کو کل چند بار دیکھا نہ کی عزیزوں کی غم گساری نہ پھر کے اپنا دیار ...

    مزید پڑھیے

    فریاد بھی میں کر نہ سکا بے خبری سے

    فریاد بھی میں کر نہ سکا بے خبری سے دل کھینچ لیا اس نے کمند نظری سے اس بت کو کیا رام نہ سوز جگری سے نالے مرے بدنام ہوئے بے اثری سے کب دل پہ اثر کرتا ہے ظالم کا تملق ملتے ہیں کہیں زخم جگر بخیہ گری سے ہے سایہ فگن تازہ نہال چمن حسن نسبت مرے دل کو ہے عقیق شجری سے اڑ جاتے تیرے ہوش مرے ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی جبہ سائی سے کبھی گھستا نہیں پتھر

    کسی کی جبہ سائی سے کبھی گھستا نہیں پتھر وہ چوکھٹ موم کی چوکھٹ ہے یا میری جبیں پتھر کھلا اب رکھتے ہیں پہلو میں پنہاں نازنیں پتھر نہ تھا معلوم ہیں قلب بتان و مہ جبیں پتھر بٹھایا خاتم عزت پہ تیرے نام نامی نے وگرنہ ہے یہ ظاہر تھا حقیقت میں نگیں پتھر دکھائے پھر نہ کیوں تاثیر اپنی ...

    مزید پڑھیے

    فراق میں دم الجھ رہا ہے خیال گیسو میں جانکنی ہے

    فراق میں دم الجھ رہا ہے خیال گیسو میں جانکنی ہے طناب جلاد کی طرح سے رگ گلو آج کل تنی ہے نہیں ہے پروائے مال و دولت صفائے باطن سے دل غنی ہے گدا ہیں حاجت روائے سلطاں یہ کیمیائے فروتنی ہے جگر میں ہیں داغ مہر و الفت شگاف پہلو ہے جیب مشرق شب لحد ہے کہ صبح محشر یہ کس قیامت کی روشنی ...

    مزید پڑھیے

    ہے آٹھ پہر تو جلوہ نما تمثال نظر ہے پرتو رخ

    ہے آٹھ پہر تو جلوہ نما تمثال نظر ہے پرتو رخ عارض ہے قمر خورشید جبیں شب زلف سحر ہے پرتو رخ آنکھوں میں ہوا ہے گھر تیرا دل کہتا ہے رکھ ہر دم پردہ ہو چشم تمنا کیوں کر وا عاشق کی نظر ہے پرتو رخ جب مد نظر اغیار تھے واں تاریک تھا یاں آنکھوں میں جہاں روشن ہے چراغ روح رواں کیا آج ادھر ہے ...

    مزید پڑھیے

    گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ

    گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ خزاں مچائے گی آتے ہی اس دیار میں لوٹ کشود کار کی کوشش میں دے نہ حرص کو دخل شکست دیتی ہے فوجوں کو کارزار میں لوٹ لبھائے سیکڑوں دل ان کے خال عارض نے مچائے زنگیوں نے وادیٔ تتار میں لوٹ وہ منتظم ہے رہے جس کی جز و کل پہ نظر نہ کر سکے کوئی گونگیر ...

    مزید پڑھیے

    وہ اٹھے ہیں تیور بدلتے ہوئے

    وہ اٹھے ہیں تیور بدلتے ہوئے چلو دیکھیں تلوار چلتے ہوئے نہ دیکھا ترے دور میں اے فلک نہال تمنا کو پھلتے ہوئے ہیں انگشت حیرت بدنداں مسیح وہ مردے جلاتے ہیں چلتے ہوئے چلو مے کدہ محفل وعظ سے یہ عمامے دیکھو اچھلتے ہوئے زباں پر ترا نام جب آ گیا تو گرتے کو دیکھا سنبھلتے ہوئے محبت ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ لو تم خوئے آتش اے قمر شیشہ میں ہے

    دیکھ لو تم خوئے آتش اے قمر شیشہ میں ہے عکس داغ مہر کا اتنا اثر شیشہ میں ہے لوگ کہتے ہیں ترے رخسار تاباں دیکھ کر شمع ہے فانوس میں یا آب زر شیشہ میں ہے رات دن رہتی ہے نیت بادۂ گل رنگ میں یہ پری وہ ہے کہ جو آٹھوں پہر شیشہ میں ہے ساعد سیمیں سے تیرے اس کو کیا نسبت بھلا توبہ توبہ کب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3