حبیب کیفی کی غزل

    کیا ہوگا جب مر جائیں گے

    کیا ہوگا جب مر جائیں گے اپنے اپنے گھر جائیں گے بات کو پوشیدہ رہنے دے بات کھلی تو سر جائیں گے قتل کیے دو چار تو سوچا ہم بھی تجھ سے ڈر جائیں گے چاہنے والے تیرے اک دن چوکھٹ پر سر دھر جائیں گے اس کی جانب جانے والے لے کر جلتے پر جائیں گے صدیاں یاد کریں گی ہم کو کام ایسے کچھ کر جائیں ...

    مزید پڑھیے

    گر کبھی فرصت ملے تو

    گر کبھی فرصت ملے تو دیکھ لینا گل کھلے تو کچھ سمجھ پایا نہ لیکن شکر ہے وہ لب ہلے تو دل کی بات نہ دل میں رکھنا کہہ دینا گر دل ملے تو کہلائیں گے آپ مسیحا میرا کوئی زخم سلے تو منتظر ہیں آپ کسی کے چل دیے ہی قافلے تو صدیوں تک چلتے رہتے ہیں چلنے والے سلسلے تو وہ نہ ہوگا جو ہوا ہے گر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2