Habeeb Ashar Dehlavi

حبیب اشعر دہلوی

حبیب اشعر دہلوی کی غزل

    موج انفاس بھی اک تیغ رواں ہو جیسے

    موج انفاس بھی اک تیغ رواں ہو جیسے زندگی کار گہ شیشہ گراں ہو جیسے دل پہ یوں عکس فگن ہے کوئی بھولی ہوئی یاد سر کہسار دھندلکے کا سماں ہو جیسے حاصل عمر وفا ہے بس اک احساس یقیں وہ بھی پروردۂ‌ آغوش گماں ہو جیسے مجھ سے وہ آنکھ چراتا ہے تو یوں لگتا ہے ساری دنیا مری جانب نگراں ہو ...

    مزید پڑھیے

    پہلو میں اک نئی سی خلش پا رہا ہوں میں

    پہلو میں اک نئی سی خلش پا رہا ہوں میں اس وقت غالباً انہیں یاد آ رہا ہوں میں کیا چشم التفات کا مطلب سمجھ گیا کیوں ترک آرزو کی قسم کھا رہا ہوں میں کیا کچھ نہ تھی شکایت‌ کوتاہیٔ نظر اب وسعت نگاہ سے گھبرا رہا ہوں میں تو یہ سمجھ رہا ہے کہ مجبور عشق ہوں کچھ سوچ کر فریب وفا کھا رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    جو مرے دل میں آہ ہو کے رہی

    جو مرے دل میں آہ ہو کے رہی وہ نظر بے پناہ ہو کے رہی میں ہوں اور تہمت زبونیٔ دل بے گناہی گناہ ہو کے رہی خلش دل پہ کچھ بھروسا تھا وہ بھی تیری نگاہ ہو کے رہی دل کی عشرت پسندیاں توبہ ہر تمنا گناہ ہو کے رہی

    مزید پڑھیے

    بے نیازی سے مدارات سے ڈر لگتا ہے

    بے نیازی سے مدارات سے ڈر لگتا ہے جانے کیا بات ہے ہر بات سے ڈر لگتا ہے ساغر بادۂ گل رنگ تو کچھ دور نہیں نگہ پیر خرابات سے ڈر لگتا ہے دل پہ کھائی ہوئی اک چوٹ ابھر آتی ہے تیرے دیوانے کو برسات سے ڈر لگتا ہے اے دل افسانۂ آغاز وفا رہنے دے مجھ کو بیتے ہوئے لمحات سے ڈر لگتا ہے ہاتھ سے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیف کیف محبت ہے کوئی کیا جانے

    یہ کیف کیف محبت ہے کوئی کیا جانے چھلک رہے ہیں نگاہوں میں دل کے پیمانے کہانیوں ہی پہ بنیاد ہے حقیقت کی حقیقتوں ہی سے پیدا ہوئے ہیں افسانے نہ اب وہ آتش نمرود ہے نہ شعلۂ طور تری نگاہ کو کیا ہو گیا خدا جانے ہزار تیری محبت نے رہنمائی کی گزر سکے نہ مقام جنوں سے دیوانے انہی کو حاصل ...

    مزید پڑھیے

    طور بے طور ہوئے جاتے ہیں

    طور بے طور ہوئے جاتے ہیں اب وہ کچھ اور ہوئے جاتے ہیں چھلکی پڑتی ہے نگاہ ساقی دور پر دور ہوئے جاتے ہیں تو نہ گھبرا کہ ترے دیوانے خوگر جور ہوئے جاتے ہیں عشق کے مسئلہ‌ ہائے سادہ قابل غور ہوئے جاتے ہیں

    مزید پڑھیے