صبح کاذب
یہ جو اک نور کی ہلکی سی کرن پھوٹی ہے کون کہتا ہے اسے صبح درخشاں اے دوست مجھ کو احساس ہے باقی ہے شب تار بھی لیکن اے دوست مجھے رقص تو کر لینے دے کم سے کم نور نے الٹا تو ہے اک بار نقاب ایک لمحے کو تو ٹوٹا ہے طلسم شب تار اس سے ثابت تو ہوا صبح بھی ہو سکتی ہے پردۂ ظلمت شب چاک بھی ہو سکتا ...