منزلوں سے بیگانہ آج بھی سفر میرا
منزلوں سے بیگانہ آج بھی سفر میرا رات بے سحر میری درد بے اثر میرا گمرہی کا عالم ہے کس کو ہم سفر کہیے تھک کے چھوڑ بیٹھی ہے ساتھ رہ گزر میرا وہ فروغ خلوت بھی انجمن سراپا بھی بھر گیا ہے پھولوں سے دامن نظر میرا اب ترے تغافل سے اور کیا طلب کیجے شوق نا رسا میرا عشق معتبر میرا دور کم ...