Ghulam Rabbani Taban

غلام ربانی تاباں

غلام ربانی تاباں کی غزل

    تمہیں بتاؤ پکارا ہے بار بار کسے

    تمہیں بتاؤ پکارا ہے بار بار کسے عزیز کہتے ہیں غم ہائے روزگار کسے سکوت راز کہو یا سکوت مجبوری مگر لبوں کی جسارت تھی ناگوار کسے خزاں میں کس نے بہاروں کی دل کشی بھر دی دعائیں دیتا ہے دامن کا تار تار کسے کہاں وہ داغ کہ دل کا گماں کرے کوئی سمجھئے عہد تمنا کی یادگار کسے نسیم صبح کا ...

    مزید پڑھیے

    بہار آئی گل افشانیوں کے دن آئے

    بہار آئی گل افشانیوں کے دن آئے اٹھاؤ ساز غزل خوانیوں کے دن آئے نگاہ شوق کی گستاخیوں کا دور آیا دل خراب کی نادانیوں کے دن آئے نگاہ حسن خریداریوں پہ مائل ہے متاع شوق کی ارزانیوں کے دن آئے مزاج عقل کی ناسازیوں کا موسم ہے جنوں کی سلسلہ جنبانیوں کے دن آئے سروں نے دعوت آشفتگی کا ...

    مزید پڑھیے

    سواد غم میں کہیں گوشۂ اماں نہ ملا

    سواد غم میں کہیں گوشۂ اماں نہ ملا ہم ایسے کھوئے کہ پھر تیرا آستاں نہ ملا غموں کی بزم کہ تنہائیوں کی محفل تھی ہمیں وہ دشمن تمکیں کہاں کہاں نہ ملا عجیب دور ستم ہے کہ دل کو مدت سے نوید غم نہ ملی مژدۂ زیاں نہ ملا کسے ہے یاد کہ سعی و طلب کی راہوں میں کہاں ملا ہمیں تیرا نشاں کہاں نہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ نازک سا تبسم رہ گیا وہم حسیں بن کر

    وہ نازک سا تبسم رہ گیا وہم حسیں بن کر نمایاں ہو گیا ذوق ستم چین جبیں بن کر بہت اترا رہی ہے رات زلف عنبریں بن کر بہت مغرور ہے نور سحر رنگ جبیں بن کر مری جامہ دری نے راز یہ کھولا زمانے پر خرد دھوکے دیا کرتی ہے جیب و آستیں بن کر کرم میں بھی مگر اک غمزۂ خوں ریز شامل تھا نگاہوں کی طرف ...

    مزید پڑھیے

    ہر ستم لطف ہے دل خوگر آزار کہاں

    ہر ستم لطف ہے دل خوگر آزار کہاں سچ کہا تم نے مجھے غم سے سروکار کہاں دشت و صحرا کے کچھ آداب ہوا کرتے ہیں کیوں بھٹکتے ہو یہاں سایۂ دیوار کہاں بادۂ شوق سے لبریز ہے ساغر میرا کیسے اذکار مجھے فرصت افکار کہاں کیوں ترے دور میں محروم سزا ہوں کہ مجھے جرم پر ناز سہی جرم سے انکار کہاں رہ ...

    مزید پڑھیے

    بستی میں کمی کس چیز کی ہے پتھر بھی بہت شیشے بھی بہت

    بستی میں کمی کس چیز کی ہے پتھر بھی بہت شیشے بھی بہت اس مہر و جفا کی نگری سے دل کے ہیں مگر رشتے بھی بہت اب کون بتائے وحشت میں کیا کھونا ہے کیا پایا ہے ہاتھوں کا ہوا شہرہ بھی بہت دامن نے سہے صدمے بھی بہت اک جہد و طلب کے راہی پر بے راہروی کی تہمت کیوں سمتوں کا فسوں جب ٹوٹ گیا آوارہ ...

    مزید پڑھیے

    ہجوم درد کا اتنا بڑھے اثر گم ہو

    ہجوم درد کا اتنا بڑھے اثر گم ہو ملے وہ رات کہ جس رات کی سحر گم ہو مزا تو جب ہے کہ آوارگان شوق کے ساتھ غبار بن کے چلے اور رہ گزر گم ہو ہماری طرح خراب سفر نہ ہو کوئی الٰہی یوں تو کسی کا نہ راہبر گم ہو چلے ہیں ہم بھی چراغ نظر جلائے ہوئے یہ روشنی بھی کہیں راہ میں اگر گم ہو تلاش دوست ...

    مزید پڑھیے

    شباب حسن ہے برق و شرر کی منزل ہے

    شباب حسن ہے برق و شرر کی منزل ہے یہ آزمائش قلب و نظر کی منزل ہے سواد شمس و قمر بھی بشر کی منزل ہے ابھی تو پرورش بال و پر کی منزل ہے یہ مے کدہ ہے کلیسا و خانقاہ نہیں عروج فکر و فروغ نظر کی منزل ہے ہمیں تو راس ہی آئی فغاں کی بے اثری مگر بتاؤ تو کوئی اثر کی منزل ہے وہ رہبرئ جناب خضر ...

    مزید پڑھیے

    وہ روشنی کہ بقید سحر نہیں اے دوست

    وہ روشنی کہ بقید سحر نہیں اے دوست ترا جمال ہے میری نظر نہیں اے دوست ترے بغیر وہ شام و سحر نہیں اے دوست کوئی چراغ سر رہ گزر نہیں اے دوست بہانا ڈھونڈھ لیا تجھ سے بات کرنے کا کچھ اور مقصد عرض ہنر نہیں اے دوست شب فراق یہ محویتوں کا عالم ہے کسی کی ہائے کسی کو خبر نہیں اے دوست مہ و ...

    مزید پڑھیے

    دل وہ کافر کہ صدا عیش کا ساماں مانگے

    دل وہ کافر کہ صدا عیش کا ساماں مانگے زخم پا جائے تو کمبخت نمکداں مانگے لطف آئے جو کوئی سوختہ سامان بہار خالق رنگ سے پھر شعلۂ عریاں مانگے حسرت دید سر بام تماشہ چاہے عشق بیتاب سر طور چراغاں مانگے رات زلفوں سے کرے شوخ اندھیروں کا سوال روشنی لوح جبیں سے مہ تاباں مانگے اک چراغ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4