مری صفات کا جب اس نے اعتراف کیا
مری صفات کا جب اس نے اعتراف کیا
بجائے چہرہ کے آئینہ میں نے صاف کیا
چھپا تھا ہیرا کوئی راستے کے پتھر میں
ہماری ٹھوکروں نے اس کا انکشاف کیا
موافقت میں چلی تھی مرے سفینے کی
ہوا نے بیچ سمندر میں اختلاف کیا
گہر بنا کے صدف نے اسے نکالا ہے
کبھی جو بوند نے دریا سے انحراف کیا
زمین گھومتی ہے جیسے اپنے محور پر
خود اپنی ذات کا میں نے یوں ہی طواف کیا