ملی راہ وہ کہ فرار کا نہ پتہ چلا
ملی راہ وہ کہ فرار کا نہ پتہ چلا
اڑا سنگ سے تو شرار کا نہ پتہ چلا
جو کھنچے کھنچے مجھے لگ رہے تھے یہاں وہاں
کسی ایک ایسے حصار کا نہ پتہ چلا
رہا جاتے جاتے نہ دیکھ سکنے کا غم ہمیں
وہ غبار اٹھا کہ سوار کا نہ پتہ چلا
رہی ہجر میں جو اک ایک پل کی خبر مجھے
تو وصال میں شب تار کا نہ پتہ چلا
کئی موسموں سے تلاش میں ہے مری نظر
کسی گلستاں سے بہار کا نہ پتہ چلا