Fuzail Jafri

فضیل جعفری

ممتاز جدید نقاد

Prominent modern critic from Mumbai

فضیل جعفری کی غزل

    خود لفظ پس لفظ کبھی دیکھ سکے بھی

    خود لفظ پس لفظ کبھی دیکھ سکے بھی کاغذ کی یہ دیوار کسی طرح گرے بھی کس درد سے روشن ہے سیہ خانۂ ہستی سورج نظر آتا ہے ہمیں رات گئے بھی وہ ہم کہ غرور صف اعدا شکنی تھے آخر سر بازار ہوئے خوار بکے بھی بہتی ہیں رگ و پے میں دو آبے کی ہوائیں اک اور سمندر ہے سمندر سے پرے بھی اخلاق و شرافت کا ...

    مزید پڑھیے

    نومید کرے دل کو نہ منزل کا پتا دے

    نومید کرے دل کو نہ منزل کا پتا دے اے رہ گزر عشق ترے کیا ہیں ارادے ہر رات گزرتا ہے کوئی دل کی گلی سے اوڑھے ہوئے یادوں کے پر اسرار لبادے بن جاتا ہوں سر تا بہ قدم دست تمنا ڈھل جاتے ہیں اشکوں میں مگر شوق ارادے اس چشم فسوں گر میں نظر آتی ہے اکثر اک آتش خاموش کہ جو دل کو جلا دے آزردۂ ...

    مزید پڑھیے

    قدم قدم پہ ہیں بکھری حقیقتیں کیا کیا

    قدم قدم پہ ہیں بکھری حقیقتیں کیا کیا بزرگ چھوڑ گئے ہیں شہادتیں کیا کیا میں تازہ دم بھی ہوں بے چین بھی ہوا کی طرح مرے قدم سے ہیں لپٹی روایتیں کیا مزاج الگ سہی ہم دونوں کیوں الگ ہوں کہ ہیں سراب و آب میں پوشیدہ قربتیں کیا کیا کرم عناد خوشی غم اسیر مایوسی دلوں کو دیتی ہے دنیا بھی ...

    مزید پڑھیے

    صبح تک ہم رات کا زاد سفر ہو جائیں گے

    صبح تک ہم رات کا زاد سفر ہو جائیں گے تجھ سے ہم آغوش ہو کر منتشر ہو جائیں گے دھوپ صحرا تن برہنہ خواہشیں یادوں کے کھیت شام آتے ہی غبار رہ گزار ہو جائیں گے دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھئے یہ شکستہ بام و در بھی ہم سفر ہو جائیں گے شورش دنیا کو آہستہ روی کا حکم ہو نذر خیر و شر ترے ...

    مزید پڑھیے

    کیسا مکان سایۂ دیوار بھی نہیں

    کیسا مکان سایۂ دیوار بھی نہیں جیتے ہیں زندگی سے مگر پیار بھی نہیں اٹھتی نہیں ہے ہم پہ کوئی مہرباں نگاہ کہنے کو شہر محفل اغیار بھی نہیں گزری ہے یوں تو دشت میں تنہائیوں کے عمر دل بے نیاز کوچہ و بازار بھی نہیں رک رک کے چل رہے ہیں کہ منزل نہیں کوئی ہر کوچہ ورنہ کوچۂ دل دار بھی ...

    مزید پڑھیے

    صداقتوں کے دہکتے شعلوں پہ مدتوں تک چلا کیے ہم

    صداقتوں کے دہکتے شعلوں پہ مدتوں تک چلا کیے ہم ضمیر کو تھپتھپا کے آخر سلا دیا اور خوش رہے ہم ردائے گریہ پہ تا قیامت نثار ہوتے رہیں گے دریا سبیل خون جگر سے نادار ساحلوں کو بھگو چلے ہم سفر تھا جب روشنی کی جانب تو پھر مآل سفر کا کیا غم چراغ کی طرح ساری شب شان سے جلے صبح بجھ گئے ...

    مزید پڑھیے

    چمکتے چاند سے چہروں کے منظر سے نکل آئے

    چمکتے چاند سے چہروں کے منظر سے نکل آئے خدا حافظ کہا بوسہ لیا گھر سے نکل آئے یہ سچ ہے ہم کو بھی کھونے پڑے کچھ خواب کچھ رشتے خوشی اس کی ہے لیکن حلقۂ شر سے نکل آئے اگر سب سونے والے مرد عورت پاک طینت تھے تو اتنے جانور کس طرح بستر سے نکل آئے دکھائی دے نہ دے لیکن حقیقت پھر حقیقت ...

    مزید پڑھیے

    دلوں کے آئنہ دھندلے پڑے ہیں

    دلوں کے آئنہ دھندلے پڑے ہیں بہت کم لوگ خود کو جانتے ہیں خزاں کے خشک پتوں کو نہ چھیڑو تھکے ماندے مسافر سو رہے ہیں ہماری غم گساری میں شب غم چراغ آہستہ آہستہ جلے ہیں نشاں پاتا نہیں کوئی کسی کا سبھی اک دوسرے کو ڈھونڈتے ہیں بس اک موج ہوائے غم ہے کافی ارادے کیا گھروندے ریت کے ...

    مزید پڑھیے

    آتش فشاں زباں ہی نہیں تھی بدن بھی تھا

    آتش فشاں زباں ہی نہیں تھی بدن بھی تھا دریا جو منجمد ہے کبھی موجزن بھی تھا میں اپنی خواہشوں سے وفادار تھا سو ہوں غم ورنہ دل خراش بھی خواہش شکن بھی تھا کالے خموش پانی کو احساس تک نہیں چہرے پہ مرنے والے کے اک بانکپن بھی تھا کس طرح مہر و ماہ کو کرتے الگ فضیلؔ شعلہ نفس جو تھا وہی گل ...

    مزید پڑھیے

    گزر رہی ہے مگر خاصے اضطراب کے ساتھ

    گزر رہی ہے مگر خاصے اضطراب کے ساتھ خیال بھی نظر آنے لگے ہیں خواب کے ساتھ تلاش میں ہوں کسی کھردرے کنارے کی نباہ اب نہیں ہوتا حباب و آب کے ساتھ شب فراق ہے سدھارتھؔ کی طرح گم سم حواس بھی ہوئے رخصت ترے حجاب کے ساتھ تعلقات کا تنقید سے ہے یارانہ کسی کا ذکر کرے کون احتساب کے ساتھ جڑی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4