Fazl Tabish

فضل تابش

فضل تابش کی غزل

    اس کمرے میں خواب رکھے تھے کون یہاں پر آیا تھا

    اس کمرے میں خواب رکھے تھے کون یہاں پر آیا تھا گم سم روشندانو بولو کیا تم نے کچھ دیکھا تھا اندھے گھر میں ہر جانب سے بد روحوں کی یورش تھی بجلی جلنے سے پہلے تک وہ سب تھیں میں تنہا تھا مجھ سے چوتھی بنچ کے اوپر کل شب جو دو سائے تھے جانے کیوں ایسا لگتا ہے اک تیرے سائے سا تھا سورج اونچا ...

    مزید پڑھیے

    نہ کر شمار کہ ہر شے گنی نہیں جاتی

    نہ کر شمار کہ ہر شے گنی نہیں جاتی یہ زندگی ہے حسابوں سے جی نہیں جاتی یہ نرم لہجہ یہ رنگینئ بیاں یہ خلوص مگر لڑائی تو ایسے لڑی نہیں جاتی سلگتے دن میں تھی باہر بدن میں شب کو رہی بچھڑ کے مجھ سے بس اک تیرگی نہیں جاتی نقاب ڈال دو جلتے اداس سورج پر اندھیرے جسم میں کیوں روشنی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کلی کلی کا بدن پھوڑ کر جو نکلا ہے

    کلی کلی کا بدن پھوڑ کر جو نکلا ہے وہ زندگی کا نہیں موت کا تقاضا ہے ہر ایک جھوٹا پیمبر ہے یہ بھی ٹھیک نہیں کہیں کہیں تو مگر سب کے ساتھ گھپلا ہے میں اس کا برف بدن روندھ کر پشیماں ہوں مگر جو دور کھڑے ہیں انہیں وہ شعلہ ہے جو تھوکتا ہے ہر ایک چیز کو اندھیرے سے کبھی کبھی وہی دن مجھ میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2