Fazl Tabish

فضل تابش

فضل تابش کی نظم

    سفر

    رات جب ہر چیز کو چادر اڑھا دے ڈھانپ لے کالے پروں میں آگ لپٹوں سی زبانیں اژدھے جب اپنے اندر بند کر لیں تب اسی کالے سمے میں تم گھروں کی قبر سے باہر نکلنا اور بستی کے کنارے خواب میں خاموش بہتے آدمی سے آ کے مجھ کو ڈھونڈھنا میں وہیں تم سب سے کچھ آگے ملوں گا اور اندھیرا سا تمہارے آگے آگے ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    سنو ہم درختوں سے پھل توڑتے وقت ان کے لیے ماتمی دھن بجاتے نہیں سنو پیار کے قہقہوں اور بوسوں کے معصوم لمحوں میں ہم آنسوؤں کے دیوں کو جلاتے نہیں اور تم لمس بوسوں سلگتی ہوئی گرم سانسوں میں آنسو ملانے پہ کیوں تل گئی ہو سنو آنسوؤں کا مقدر تمہارا مقدر نہیں تم ابھی موسموں سے پرے اپنی ...

    مزید پڑھیے

    موت ماں کی طرح ساتھ ہے

    اس گلی کا سرا بھی کہیں کی سڑک پر ہی اگلے گا تاریک منہ پھاڑتی اس گلی میں اتر جاؤ گہرے اتر جاؤ بدبو دماغوں میں بھرتی ہے بھر جائے غم مت کرو پیپ خون اور معدے کی سب گندگی صاف کپڑوں پہ آتی ہے آ جائے غم مت کرو اس گلی میں اڑ کر بھٹکنا ہے ٹکراتے پھرنا ہے کھو جاؤ ٹکراؤ غم مت کرو موت ماں کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    آ کے ہو جا بے لباس

    دن جو کہتا ہے مت سن دھوپ کاندھوں پر اٹھانے سے بھی ہٹ جا ڈھیر سے غصے کو اپنی مٹھیوں میں بھر کے لے آ شہر بھر کے منہ پہ مل دے ہر طرف کالک ہی کالک پوت دے دیوار و در پر دن کے سب آثار ڈھا دے نوچ لے آکاش سے جلتے ہوئے خورشید کو دھوپ کی چادر کو کر دے تار تار اور پھر گھر آ کے ہو جا بے لباس بند ہو ...

    مزید پڑھیے

    جب جنگل بستی میں آیا

    میرے چاروں اور مکانوں سے آتی آوازیں سڑکوں پر لہراتی ان گنت موٹر کاریں اسکولوں سے چھنتی زندہ ہنستی بھن بھن لیمپ پوسٹ سے بہتی جگمگ دھارا ہنستے لوگوں سے بھرپور دوکانیں سڑکیں اخباروں میں چھپنے والی اونچے انسانوں کی باتیں جو برسوں میں پورے ہوں گے ایسے منصوبوں کی باتیں کہتی ہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    آسماں سر پر اگانے میں مرا حصہ نہیں ہے یہ زمیں بھی کل تلک جس گائے کے سینگوں ٹکی تھی وہ مری کوئی نہیں تھی اور اب جس بے بدن ننگے خلا میں تیرتی ہے وہ خلا بھی میں نہیں ہوں ہر طرف پھیلی ہوئی بے رنگ چہرہ زندگی کو میں بھلا کیا ڈھالتا گوشت کا جو لوتھڑا لکھا ہے میرے نام وہ بھی اور کا ڈھالا ...

    مزید پڑھیے